پریشانی

احساس:

اداسی کے برخلاف پریشانی کا مرکز باہر ہوتا ہے اور اس کا تعلق مستقبل سے ہوتا ہے۔ کچھ لوگ کہہ سکتے ہیں کہ پریشانی وہ خوف ہے جس کا ادراک  یا تجربہ پوری طرح نہ کیا گیا ہو۔ یہ خوف اس یقین کی بنا پر ہوتا ہے کہ فوری یا مستقل نوعیت کا کوئی خطر ہ موجود ہے اور نقصان یا تکلیف لازمی ہے۔ پریشانی کا شکار ہمہ وقت یہ سوچتا رہتا ہے کہ اسے کچھ اور کرنا چاہئے۔ ایک ایسے مستقبل کے خوف سے(ہمارے لئے دوسروں اور پوری دنیا کے لئے) نقصان، دکھ اور تکلیف سے ہونے والی بے چینی کا احساس۔

i17

اشارے:

پریشانی خود کو ان شکلوں میں ظاہر کرتی ہے:

  1. بے چینی کی کیفیت
  2. سانس کی تنگی
  3. توجہ کا مسئلہ
  4. نیند کی خرابی
  5. معدے میں گڑبڑ
  6. بھوک کی کمی بیشی

اپنی دیکھ بھال کی مشقیں:

ہماری بے چینی کو ہوا دینے والے خیالات اکثر ہماری بیتی یادوں،  خیالی ناکامیوں یا ناخوشگوار تجربوں سے سے جڑے ہوتے ہیں۔ایک ناپسندیدہ نتیجے یا تجربے سے بچنے کی اپنی کوششوں میں ہم اپنی توجہ خیالی خطرے جیسے امتحان میں ناکامی یا ملازمت کی پیش کش سے انکار پر توجہ مرکوز کردیتے ہیں۔ اس کے بجائے کہ ہم اپنی توجہ اور یادداشت پڑھائی یا انٹرویو کی تیاری پر لگائیں، ہماری توانائی ان ممکنہ ناخوشگوار واقعات کے اندیشوں پر صرف ہوجاتی ہے۔اگر پریشانی غالب آجائے توذیل میں دی گئی حکمت ہائے عملی مدد کر سکتی ہیں:

  1. ہوسکتا ہے کہ کچھ اندیشے سچ ہوں اور کچھ نتائج تکلیف، دکھ یا نقصان کا سبب بن جائیں،  تو پریشانی قدرتی بات ہے۔ جب تک پریشانی کا دباؤ آپ کو اپنی توانائی اور وسائل کو ترتیب دے کے مسئلے سے نمٹنے میں مدد دے یہ مفید ہے۔ اس کے بعد اگر پریشانی آپ کی توانائی کم کرنے لگے،  محرک ختم کردے،  توجہ ہٹادے اور ہمت کمزور پڑنے لگے تو اپنے آپ سے پوچھئے: کیا یہ حقیقی ہے؟ کیا یہ سب کچھ واقعی ابھی ہورہا ہے؟ یہ بہت ضروری ہے کہ اس خوف کو تسلیم کیا جائے اوررد عمل دئیے بغیر جسم میں اسے پوری طرح محسوس کیا جائے۔
  2. ایک اور عادت جو پریشانی کو ہوا دیتی ہے وہ آگے چھلانگ لگا نا اور ایک غلطی، ناکامی یا مایوسی کوتباہی بنالیناہے۔ مثال کے طور پر اگر مجھے اس امتحان میں اے گریڈ نہ ملا تو میرا داخلہ میری پسندیدہ یونیورسٹی میں نہیں ہوگا اور پھر مجھے وہ ملازمت نہیں ملے گی جو میری خواہش ہے اورپھر مجھ سے کوئی شادی نہیں کرے گا اور میری ساری زندگی تنہا گزرے گی۔اگر آپ کو ایسے اندیشے محسوس ہونے لگیں تو ایسی چیزوں پر توجہ دیجئے جو آپ کی اپنی کوششوں سے ہوسکیں نہ کہ ان پر جو آپ کے بس میں نہیں۔ اس سوال کی جگہ کہ”کیا میں یہ کرسکتا ہوں؟“  خود سے یہ پوچھیں،”یہ میں کیسے کرسکتاہوں؟“۔مثلا اگر آپ ایک طالب علم ہیں تو اس پر سوچتے رہنے کا کوئی فائدہ نہیں کہ آپ کے ریاضی کے استاد اچھے نہیں،  کیونکہ ریاضی کے ٹیچر کی تبدیلی شاید آپ کے بس میں نہ ہو۔ اس کے بجائے آپ یہ کرسکتے ہیں کہ اپنے ساتھی طلبہ کے ساتھ خوب محنت سے پڑھیں۔آپ حال میں جن چیزوں پر اثرا نداز ہو سکتے ہیں ان پر توجہ دیجئے اور مستقبل کی پریشانیوں میں نہ کھو جائیے۔
  3. پریشانی کا شکار افراد کے دل کی دھڑکن اکثر تیز ہوجاتی ہے۔ایسی ورزشیں کرنا مفید ہوتا ہے جن سے سانسیں دھیمی ہوجائیں، یوگا جیسی ہلکی ورزشیں یا اپنے ہاتھوں سے کام کرنا۔
  4. سانس لینے کی ورز ش آپ کی سانسوں کو فطری رفتار پر لے آئے گی، سانس خارج کرنے میں کم سے کم مزید تین تک گنئے۔ لمبی سانس لینے سے جسم،  دل کے آرام کرنے کی رفتار پالیتا ہے۔
  5. ایسے لوگوں کے درمیان رہئے اور ان تفریحات میں وقت گزارئیے جہاں آپ ہنستے رہیں۔ ہنسی ہمارے جسم کے ان حصوں تک پہنچتی ہے جہاں پریشانیاں گھر کئے ہوئے ہوتی ہیں اور یہ ہنسی ان پریشانیوں کو جھٹک سکتی ہے۔