بلال کی کہانی

میرا یہ سفر جب شروع ہوا تو میں 14سال کا تھا اور تب ہی مجھے معلوم ہوگیا تھا کہ میرے ساتھ کوئی مسئلہ ہے۔اس وقت مجھے یہ بھی پتا نہیں تھا کہ پڑھنے میں رکاوٹ(ڈسلیکسیا)کیا ہوتا ہے۔مجھے توجہ میں کمی (اے ڈی ڈی) بھی تھا۔ میری ماں نے مجھے پاکستان کے چند بڑے اسکولوں میں بھیجالیکن تیسری کلاس کے بعدمیرے لئے مشکل ہوتا گیا۔مجھے الفاظ لکھنے میں دشواری ہوتی تھی۔میں توجہ بھی نہیں دے پاتا تھاخواہ کلاس میں کتنی بھی خاموشی ہو۔یہاں کے اسکول پڑھنے لکھنے میں اس خرابی کو نہیں سمجھتے اور وہ کلاس میں کسی واحد بچے پر توجہ بھی نہیں دے سکتے۔حاصل کلام یہ کہ اسکولوں میں میرے لئے کوئی جگہ نہیں تھی۔

میری ماں نے مجھے بڑے اسکول سے نکال لیا اور میں ایک چھوٹے اسکول میں داخل ہوگیا۔ ٹیچریہاں زیادہ سمجھدار تھے لیکن چند ٹیچر اور چند طلبہ مجھے تنگ کرتے اور حد سے زیادہ برا برتاؤ کرتے۔میں روزانہ ہی رویا کرتا۔ ان دنوں میں بہت اداس رہتا تھا۔ میں بات بھی نہیں کرتا تھا۔میں صحیح طور سے لکھ بھی نہیں سکتا تھا۔ آخر کار مجھے انہوں نے کلاس کا مسخرہ قرار دے دیا اور اسکول کے باقی دنوں میں مجھے یہی بلایا جاتا۔دوسرے لڑکے مجھے مارا پیٹا بھی کرتے۔

اسکول میں چونکہ میں کسی مضمون میں بھی پاس نہیں ہوسکا، دوسال میری پڑھائی گھر پر ہوتی رہی۔ ٹیچر بہت سخت تھیں وہ واقعی چاہتی تھیں کہ میں پڑھنے لگوں۔ میں لمبے لمبے مضمون لکھنے لگا اور مجھے یقین ہوگیا کہ اب میں واپس اسکول جاسکونگا۔لیکن جب ہم نے اسکولوں کی تلاش شروع کی تو وہ میرے مسائل کو سمجھنے سے قاصر تھے۔ مجھے اضافی توجہ کی پیش کش کرنے کی بجائے انہوں نے کہا کہ مجھے چوتھی کلاس میں جانا چاہئیے جبکہ مجھے آٹھویں کلاس میں ہونا چاہئیے تھا۔ میری خود اعتمادی کو بڑی ٹھیس لگی۔

گھر پر پڑھانے والی میری ٹیچر نے بیرون ملک اسکول تلاش کرنا شروع کیا۔ آخرکار میں نے بھارت کے ایک اسکول میں داخلے کا فیصلہ کیا۔اسکول میں دلچسپی کی تمام سہولیات موجود تھیں۔ اسپورٹس، آرٹس اور سائنس۔ بھارت میں مجھے آٹھویں کلاس میں داخلہ بھی مل گیا۔ اس وقت میں سولہ سال کا ہوچکا تھا۔ میری عمر کے بچے مجھ سے دو یاتین کلاس آگے تھے۔ شروع میں تومجھے نچلی کلاس میں ہونے پر تنگ کیا جاتا رہا۔ لیکن پھر میرا دل لگنے لگا۔

آٹھویں کلاس میں ہی تیراکی کا ایک مقابلہ ہونے والا تھا۔ شروع میں تو دوسرے بچے مجھ سے زیادہ تیز رفتاری سے تیراکی کرتے اور ٹیچر نے کہا کہ میں مقابلے میں حصہ نہیں لے سکتا۔ میرا تو جیسے دل ٹوٹ گیا اور میں نے کہا کہ میں ٹیم کیپٹن سے ایک بار ریس کرنا چاہتا ہوں۔ اور میں نے بیک اسٹروک میں اس سے بازی جیت لی اور تیراکی ٹیم کا حصہ بن گیا۔میں نے فوٹو گرافی کی ایک انفرادی نمائش میں بھی ایک بار حصہ لیا۔ اس اسکول میں اب میری ساکھ بننے لگی تھی۔

اس سب کے باوجود مجھے اکثر اسکول میں بے حد غصہ آجاتا اور کئی بار لڑائیاں ہونے لگتیں۔میں نے خود کو زخمی کرنا شروع کردیا خاص طور پر لڑائی کے بعد تو ایسا ضرور کرتا۔میں اپنے ہاتھ سے گلاس توڑا کرتا تاکہ مجھے توجہ ملے۔ اس دوران مجھے کئی مسائل پیش آئے۔ میرا اکثر دل چاہتا کہ اپنے بازو میں گہرا زخم لگالوں تاکہ ذہنی تکلیف جسمانی بن جائے۔ میری ٹیچر نے ایک دن کہا: ”تم اپنی تمام مایوسیوں کا غبار اپنے آرٹ ورک پر کیوں نہیں نکالتے؟جو خیال بھی ذہن میں آئے اسے ڈرائنگ میں ڈھال دو۔“ یہ بات میرے لئے بڑی اہم بن گئی۔

ہائی اسکول سے گریجویشن کرنے کے بعد میں پاکستان واپس آگیا اور لاہورمیں آرٹ کی تعلیم حاصل کرنے لگا۔وہاں مجھے کوئی نہیں جانتا تھا۔ اب میری اہمیت صفر ہوگئی تھی۔ اب میں اپنی انا کو بہت بڑھا چڑھا رہا تھا اور اس وجہ سے اسکول میں باغی بنتا گیا۔ ہاسٹل میں میرے کمرے کا میرا ساتھی بھی اچھا نہیں تھا، وہ سینئیر تھا اور پھر ہمارابڑا سا جھگڑا ہوگیا۔ جب وہ جھگڑا ختم ہوا تو میں نے اس پر پٹرول چھڑک کر آگ لگانے کی کو شش کی۔ خوش قسمتی سے بات بگڑنے سے پہلے ہی معاملے پر قابو پالیاگیا۔

یونیورسٹی کے فاؤنڈیشن سال میں روز ہی میں رویا کرتا تھا۔ اسکول میں مجھے بہت سی مراعات حاصل تھیں اب ایسا لگتا تھا جیسے مجھے کچھ بھی نہیں مل رہا ہو۔پہلے سال کے اختتام سے پہلے میں ایک لڑکی سے ملنے جلنے لگا، مجھے وہ واقعی پسند تھی۔ایک وقت آیا کہ وہ اچانک مجھے چھوڑ گئی اور مجھے وجہ تک معلوم نہ ہوسکی۔میری پوری کلاس میری مخالف ہوگئی۔ اب میں بہت بے چین ہو چلا تھااور ایسی حرکتیں کرنے لگا تھاجو نہیں کرنا چاہئیے تھیں۔میری ساکھ خراب ہونے لگی۔

جب میں نے اس لڑکی کو کھودیا تو مجھے ایسا لگا جیسے اب کچھ بھی نہ بچا ہو اور مجھے خودکشی کے خیالات آنے لگے۔ میں نے ایک نوٹ لکھا اور اپنے وارڈن کے کمرے میں ڈال دیا تاکہ اپنے اقدام کی وضاحت کرسکوں۔ میں نے خود کو کمرے میں دو روز تک مقفل رکھا۔ اپنے غسل خانے میں روشنی کا سوئچ بند کردیااور وہیں بیٹھا رہا اور اپنی کلائی کو جس حد تک کاٹ سکتا تھا کاٹنے کی کوشش کرتا رہا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ مجھ میں خود کو مارڈالنے کی ہمت نہیں تھی۔ خوش قسمتی سے میرا ایک دوست ماہر نفسیات تھا۔اور جب میں اپنے کونسلر کے پاس نہ جاپاتا تو وہ تو موجود ہی ہوتا تھا۔

صورتحال اتنی خراب ہوگئی کہ میں نے آرٹ چھوڑ کے لاہور سے کراچی آنے کا فیصلہ کرلیا۔  میں اپنی تھرا پسٹ سے ہر تیسرے روز ملاقات کرتا، پھریہ ملاقات ہر ہفتے اور اس کے بعد مہینے میں ایک بار ہونے لگی۔ میں جذباتی طور سے بہتر ہونے لگااور اپنے ارد گرد کے بارے میں میری سوچ مثبت ہونے لگی۔

البتہ میری گرل فرینڈ اس وقت مجھے کسی اور روپ میں دیکھنا چاہتی تھی؛ وہ مجھے ایک دفتری ملازم بنانا چاہتی تھی فوٹو گرافر نہیں۔ بات بن نہ سکی اور مجھے واقعی غصہ آگیا۔میں نے ایک گلاس اٹھا کے اپنے سر پر توڑ ڈالااور بے ہوش ہوگیا۔میں اس مرحلے پراب روزانہ تھراپی کے لئے جانے لگا تھا۔ میری تھراپسٹ نے مجھے مکمل طور سے بچالیا۔اگر میری تھراپسٹ نہ ہوتی تو میں آج یہاں آپ کے سامنے نہ بیٹھا ہوتا۔وہ مجھے چند ایکسر سائز کرنے میں مدد کرتی ہے، وہ مجھے باہر آنے جانے کے لئے اور وہ سب کرنے کے لئے کہتی ہے جو مجھے بہت اچھا لگتا ہے۔وہ بہت حوصلہ بڑھاتی ہے۔ اب میری فوٹو گرافی میں واقعی جان آگئی ہے اور میں اپنی زندگی کے باب میں اب زیادہ مثبت ہوگیا ہوں۔ میں اب ناکامی سے خوفزدہ نہیں ہوتا۔