سکینہ کی کہانی

سکینہ: تشخیص ضروری ہے

میری اپنی والدہ کو شیزو ایفیکٹو ڈس آرڈر تھا۔ بچپن میں مجھ پر ان کی بیماری کا اثر توہوا لیکن میں نہیں سمجھتی کہ میں اس کی وجہ سے ذ ہنی بیماری میں مبتلا ہوئی۔ یہ میری پہلی شادی کی وجہ سے ہوا۔ پاکستانی معاشرے میں عام طور پر آپ کے اوپر آپ کے سسرالیوں کا بیحد دباؤ رہتا ہے اور میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ میں کل وقتی ملازمت کرتی تھی جبکہ خاندان میں بے شمارگھریلو ذمہ داریاں مجھ پر تھیں۔ میں بہت کم سوپاتی تھی۔ میرا خیال ہے کہ شادی کو سات یا آٹھ ماہ گزرے تھے کہ مجھے اپنے اندر تبدیلی محسوس ہونے لگی۔ میں وہ نہیں رہی جو پہلے تھی۔ میں بہت ناخوش، پست ہمت اور کبھی اپنے آپ کوغصے میں پاتی۔

ہم ایک مشترکہ خاندانی نظام کے تحت رہتے تھے اور میرے سابق شوہر کے بھائی کی بیوی بھی انتہائی مشکل عورت تھی۔ قصہ مختصر یہ کہ ا س نے میرے ساتھ ناقابل تصور باتیں منسوب کرنا شروع کردیں، یہاں تک کہ ایک دن اس نے مجھ پربچے کوتکلیف پہنچانے کا الزام لگایا۔اپنی بیماری کے باوجود میں تو انہیں تکلیف پہنچانے کا کبھی سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔بس اس لمحے میں برداشت نہ کرسکی اور خود کو اذیت دینے کا عمل شروع ہوگیا۔ میں اپنے آپ کو زخمی کرتی رہتی۔

اپنے شوہر سے ایک دن اس بارے میں بات کررہی تھی کہ اس نے میری پیٹھ پر ضرب لگائی۔ اس وقت تو تکلیف ہوئی لیکن اگلے روز سے میں نے معمول کے مطابق کام شروع کردیا۔سات آٹھ سال بعد مجھے پتا چلا کہ میرے دونوں کولہوں کے جوڑ اتنے خراب ہوگئے تھے کہ مجھے ان کو تبدیل کرنے کے لئے سرجری کرانا پڑی۔ یہ ایک بھیانک خواب سے کم نہیں، یعنی میری یہ شادی۔ آخرکارشوہر نبھا نہیں سکا۔ میں بے حد بیمار ہوگئی تھی۔ لہذا شادی ختم ہوگئی۔

اس وقت میں انگلینڈ میں تھی اورکام کررہی تھی پھر میں نے تین ماہ کی چھٹیاں لینے کا فیصلہ کیا، یہاں آگئی اور اپنے والدین کے ساتھ وقت گزارنے لگی۔ میرے والد مجھے ایک ڈاکٹر کے پاس لے گئے، انہوں نے تشخیص کی کہ مجھے زبردست ڈپریشن ہے اور دوا لکھ دی۔ انہوں نے سمجھا کہ ڈپریشن ہے جس میں غصے کے دورے پڑتے ہیں۔ میں واپس انگلینڈ گئی تو خود کو بہتر محسوس کررہی تھی۔ میں دوبارا معمولات بحال کرنا چاہتی تھی کہ دیکھوں کہاں پہنچتی ہوں۔ میں اپنی پہلی شادی کے تجربات کو بھولنے کے لئے بہت بے چین تھی اس لئے میں نے جسمانی اذیت دہی کے حصے کو اپنے اندر ہی دفن کردیا۔ اسی لئے جب یہ دبا ہوا مرض 2009ء میں باہر نکلا تو مجھے کچھ یاد نہیں رہا کہ ہوا کیا تھا۔ جب ڈاکٹر نے پوچھا، ”کیا تم نے خود کو زخمی کیا ہے؟“ تو مجھے یاد ہی نہیں آسکا تھا۔ میری زندگی چلتی رہی …یہاں تک کہ وہ جسمانی خود اذیتی کا سلسلہ دوبارا شروع ہوگیا اور تکلیف پیدا ہونے لگی۔

جب 2009ء میں مجھے پتا چلا کہ مجھے سرجری کی ضرورت ہے تو میں نے پاکستان آنے کا فیصلہ کیا۔ آنے کے کچھ عرصے بعد ہی میری ملاقات میرے موجودہ شوہر سے ہوئی اور ہمیں جیسے علم ہوگیا کہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔چھ سال پہلے تک میرے خاندان میں کسی کو معلوم نہیں تھا کہ میں اس قسم کی جسمانی خود اذیتی کی تکلیف میں مبتلا رہی تھی۔اس قسم کی باتیں کسی کو، خاص طور پر اس وقت جب آپ بیمار ہوں، بتانا بہت مشکل ہوتا ہے۔ تکلیف بانٹنے کے فوائد کا علم تو مجھے اب ہوا ہے۔ اس سے آ پ کے اعتماد پر اثر پڑتا ہے۔میں سوچتی تھی کہ میں ایک وکیل ہوں، مجھے دوسروں کے تحفظ کی تربیت ملی ہے پھر بھی میرے ساتھ یہ سب کچھ ہوگیا ہے، اسی لئے مجھے اس پر شرم آتی تھی کیونکہ میں اس طرح زندگی نہیں جی پا رہی تھی جس کے لئے میں نے خود کو تیار کیا تھا۔

جس وقت میری دوبارا شادی ہوئی تو ڈاکٹر کہہ چکے تھے کہ اب مجھے دوا کی ضرورت نہیں کیونکہ میری زندگی اب مستحکم لگ رہی تھی۔ یہ گمان زیادہ اچھاثابت نہیں ہوا کیونکہ میری طبیعت بگڑنے لگی تھی۔ دو بار میرے حمل بھی ضائع ہوئے اور یہ سب باتیں اکھٹی ہوگئیں۔ میں نے ایک تھیریپسٹ کے پاس جانا شروع کردیاوہ اس لحاظ سے اچھی تھیں کہ انہوں نے اپنی مدد سے مجھے میرے ماضی سے گزارااور گرہیں سلجھاکر ان کے ساتھ نمٹنے میں مدد دی۔

ایک وقت آیا کہ ہر مشکل بڑھنے لگی۔ کئی بار غلط تشخیص کے بعدبالاخرپتا چلا کہ اختلال دو قطبی یعنی بائی پولر ہے مجھے، اور اس تشخیص سے مجھے واقعی بہت مدد ملی۔ دوا شروع کرنے کے تین ماہ کے اندر مجھے اپنے اندر تبدیلی محسوس ہونے لگی جو اتنے طویل عرصے سے نہیں نظر آئی تھی۔اس کا مطلب یہ نہیں کہ مسئلہ ختم ہوگیا تھاکیونکہ یہ مسئلہ نہ صرف طبی تھا بلکہ اس کا تعلق ماحول سے بھی ہے اس لئے دباؤ ہو تو مرض ابھر آتا ہے۔

میں خود کوخوش قسمت سمجھتی ہوں کہ میں درست وقت پر درست جگہ موجود تھی اور مجھے بہترین ڈاکٹروں سے علاج کروانے کا موقع ملا، میں جسمانی طور پر بہتر ہوئی تو مجھے ذ ہنی طور پر بھی بہت فائدہ ہوا۔ میری صحتمندی میں سب سے بڑا ہاتھ میرے شوہر کا ہے۔اگر محبت کی کوئی یادگار کہانی سنائی جاسکتی ہے تو وہ ہماری ہے۔انہوں نے واقعی میری دیکھ بھال کرکے مجھے صحتمندی کی طرف لوٹایا۔ میرا اپنی اس کہانی کو سنانے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ یہ ایک اچھی کہانی ہے۔ یہ امیدوں کی کہانی ہے۔ حالات واقعی بگڑ سکتے ہیں اور آپ کی زندگی میں خرابیاں پیدا ہوسکتی ہیں لیکن امید کا دیا ہمیشہ روشن رہتا ہے۔

لوگوں کے لئے یہ قبول کرلینا تو آسان ہے کہ آپ کے دل یا جگر میں کوئی خرابی ہوگئی، لیکن وہ دماغ کو ایک عضو تسلیم نہیں کرتے۔اور جب دماغ میں کوئی خرابی ہو تو آپ کی پوری شخصیت متاثر ہوجاتی ہے۔ ہمیں اس بارے میں شعور پیدا کرنے کی ضرورت ہے کہ دماغ بھی محض ایک جسمانی عضو ہے۔

میں دیگر متاثرہ افراد سے اب یہ کہنا چاہتی ہوں کہ: جب آپ کو یہ معلوم ہوجائے کہ آپ کسی مسئلے کا شکار ہیں تو ہوسکتا ہے کہ آپ خوفزدہ ہوجائیں جبکہ میرے لئے یہ جاننا سکون بخش ثابت ہوا تھا۔ کیونکہ میں اپنے پاگل پن کے روئیے کو سمجھ نہیں پارہی تھی کہ میں جو بھی کررہی تھی وہ سب کیوں کررہی تھی۔ اس لئے میری تشخیص میرے لئے تو خوف کی بجائے اطمینان کا باعث بنی۔اس لئے میرا پیغام یہ ہے کہ تشخیص کرالینا بہت بہتر رہتا ہے۔آپ کو معلوم ہوجائے کہ آپ کو کیا تکلیف لاحق ہے تو آپ اس کے علاج کے لئے کچھ کر سکتے ہیں۔ ذہنی صحت کے کسی مسئلے کی تشخیص میں ڈرنے کی ضرورت نہیں، آپ نے کافی مشکل وقت تو گزار لیا ہے، لیکن اب آپ کو علم ہے، آپ روشنی کی طرف رخ کرسکتے ہیں جہاں امید موجود ہے۔