بات چیت افراد کے درمیان سوچ اورخیالات کا تبا دلہ ہوتا ہے۔ہمیں بچپن سے یہ سکھایا جاتا ہے کہ بات چیت ایک فن ہے۔یہ سننے اور سنوانے کا بھی فن ہے۔ لیکن بڑے ہوتے ہوتے ہم وہ حصہ بھول جاتے ہیں جو سننے کا ہے۔ہم اپنی تو کہتے ہیں لیکن کیا ہم ایک دوسرے سے رابطہ کررہے ہوتے ہیں؟کیا ہم واقعی توجہ دیتے اور کوشش کرتے ہیں کہ ہمارا پورا دھیان اپنے ارد گرد کے لوگوں کی طرف ہو؟ اپنی بات زیادہ سے زیادہ سےسنانے، اپنی رائے دوسروں پر تھوپنے کی کوشش میں ہم نہ صرف دوسرے کے مسئلے کو نظر انداز کردیتے ہیں بلکہ کبھی کبھی تو ان کی طرف سے مدد کی خاموش پکار کو اپنی لاپرواہی کی نذر کردیتے ہیں۔
دوسرے کی بات کو واقعی سننے کے لئے ہماری صرف تھوڑی سی کوشش درکار ہوتی ہے۔ اکثر اوقات جب ہم کسی سے پوچھتے ہیں کہ ” ہاں بھئی کیا حال ہے؟”تو ہم واقعی اس کا حال نہیں پوچھ رہے ہوتے ۔ یہ ایک روایتی سا انداز ہے خیر مقدم کا۔اب ذرا سا ٹہرئیے اور سنیے کہ وہ جواب میں کیا کہتے/کہتی ہیں؟صرف اپنے کان سے نہیں بلکہ دل لگاکے سنیے۔ہم دوسروں کو اپنی سب سے بہترین چیز کیا دے سکتے ہیں ، وہ ہے وقت، اپنے ارد گرد کے لوگوں کو یہ احساس دلائیے کہ آپ ان کے لئے آس پاس موجود ہیں۔
ہمدردی اور توجہ کے لئے ہم سب ترستے ہیں۔ہم سب پر کوئی نہ کوئی ایسا بوجھ ہوتا ہے جسے ہم بانٹنا اور اپنی روح کو ہلکا پھلکا کرنا چاہتے ہیں۔ہم سب کسی ایسے سے بات کرنا چاہتے ہیں جو ہمیں سمجھ سکے اور ہمیں زندگی میں آگے بڑھنے میں مدد دے سکے۔ تو اگلی بار جب آپ کسی سے ملیں ، اپنا فون بند کردیں؛ بات سنیں ، بولیں اور بانٹیں۔ خواہ وہ آپ کے/ کی شریکِ حیات ہوں، بچے ہوں، دوست یا ساتھی ہوں اور بات چیت کیجئے۔ایسا صحت مند اور محفوظ ماحول پیدا کیجئے کہ جہاں سب اپنے احساسات اور مسائل بیان کرسکیں اور انہیں یہ خوف نہ ہو کہ ان کے بارے میں رائے قائم کی جارہی ہے۔ بات چیت شروع کیجئے، سنئیے!اپنے/ اپنی شریک حیات سے پوچھئے کہ ان کا دن کیسا گزرا، ماں کو گلے لگائیے، بچے کی تعریف کیجئےاور اسے اپنی غیر مشروط محبت اور سہارے کی یاد دہانی کرائیے، اپنے اس دوست کے ساتھ وقت گزارئیے جو سماجی زندگی سے دور ہورہا/ ہورہی ہو، کبھی رائے قائم نہ کیجئے بلکہ سنئیے۔ اپنے ارد گرد کے لوگوں کو اپنا وقت دیجئے۔ بہر حال بات چیت تھوڑی سہی لیکن دور تلک جائے گی۔