خودکشی سے دکھ جاتا نہیں ، کسی اور کے دل میں اترجاتا ہے

ذہنی بیماری کے ہاتھوں لوگ ایسی حرکت کر بیٹھتے ہیں کہ  انسان کا دماغ پھٹنے لگتا ہے،  اور ہمارے دل خون کے آنسو بہانے لگتے ہیں۔حالیہ دنوں میں خودکشی کی وبا کی بڑھتی ہوئی تعدادنے سنگین اندیشوں کو جنم دیا ہے۔دوسری طرف ہم یہ بھی نظر انداز نہیں کرسکتے کہ ذہنی بیماری  ہمارے معاشرے میں اس وقت  ہمیشہ سے کہیں زیادہ پائی جارہی ہے۔ہم  انفرادی طور پر اس  سنگین حقیقت کی طرف متوجہ ہوچکے ہیں جو ہمارے معاشرے میں کئی  رنگ میں موجود ہے۔عالمی صحت تنظیم (World Health Organization)کے تخمینے کے مطابق ہر سال تقریبا 10 لاکھ لوگ خودکشی سے مرجاتے ہیں۔آخر وہ کیا بات ہے جو لوگوں کو اپنی جان لینے  کی طرف لے جاتی ہے؟ لوگ خودکشی کو کس طرح لیتے ہیں؟ کیا وہ مرحوم کے خاندان سے ہمدلی  محسوس کرتے ہیں یا بے حس رہتے ہیں؟اس لئے میں نے اس باشعور شخص کا یہ بیانیہ تیار کیا ہے جس نے  اس موقع پر وہاں نہ ہونے اور اس کی مدد  نہ کرسکنے کی ذمے داری محسوس کی   جب ایک شخص  نے چند گھنٹے پہلے خودکشی کر ڈالی تھی۔

” کل رات  میرے دل پر ایسی چوٹ لگی کہ میرا پورا جسم  جیسے اندر سے باہر الٹ پلٹ ہوگیا۔دھماکا!   ش  نامی خاتون نے خودکشی کرلی۔تمام تنقید کرنے والے  اسی کو الزام دے رہے تھے کہ اس کا مذہب پر عقیدہ کمزور پڑگیا تھا۔لوگ اس سے ہمدردی کرتے ہوئے یہ طنزیہ  تبصرہ بھی ساتھ ملارہے تھے۔”  اس کی ذات کے اندر جاری جنگوں کو ختم کرنے  کا کوئی اور  راستہ ہونا چاہئیے تھا۔”میں ایک طرف کھڑی رہی   اور  بند کمرے میں اِدھر اْدھرگونجتےیہ تبصرے سنتی رہی۔میں نے اپنے آپ سے سرگوشی کی کہ یہ سب اتنے اندھے  کیوں ہیں کہ انہیں قتل اور خودکشی میں فرق تک نظر نہیں آرہا۔یہ قتل ہمارے ہاتھوں ہوا ہے؛یہ مسلسل دباؤ تھا جس نے اس کے جسم سے اس کی روح نکال دی۔میرا جسم جیسے جامد ہوگیا اور میرا چہرہ تکلیف سے زرد ہوگیا کہ میں بھی  اس موت کی ذمے دار ہوں۔میں نے ش سے کیوں نہیں پوچھا کہ وہ ٹھیک ہے یا نہیں۔میں نے اس کی ظاہری  خوش باش صورت دیکھی جو دکھاتی تھی کہ اس کی زندگی  اتنی ہی خوبصورت  اورنعمتوں سے بھری ہے  جتنی ہوسکتی تھی۔ میں نے اس ہجوم میں اپنے کان بند کرلئے اور اب مجھ پر کوئی آواز اثر نہیں کررہی تھی۔میں جیسے دن میں  خواب دیکھنے لگی کہ میں نے اس سے پوچھا ہے کہ میں اس کے دکھ درد میں کسی کام آسکتی ہوں؟ میں اسے محسوس بھی کرسکتی ہوں۔ کبھی کبھی برے حال سے گزرنا برا نہیں ہوتا۔ انسان ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتے ہیں اور مجھے پتا ہے کہ اس وقت ایسا لگتا ہے جیسے زندگی کی ضرورت نہیں رہی، لیکن ہم دونوں مل کر جیسے بھی ممکن ہو مسئلہ حل کرسکتے ہیں۔مجھے ایسا لگا جیسے میں اس کی کہانیاں سن رہی ہوں جو خوف، عدم تحفظ، دکھ ، نقصان،  صدمے، درد اور مایوسی سے بھری پڑی تھیں۔میں نے اسے گرتے دیکھا  اور پھر اس کے ٹکڑے ٹکڑے سمیٹے   ۔ اور پھر آپ جانیں یہی سب سے غمناک ترین حصہ  ہے کہ  یہ سب  محض میرا تصور ہے حقیقت نہیں۔ش تو اب جاچکی۔اب کچھ بھی بدلا نہیں جاسکتااور ہم سب خالی ہاتھ کھڑے اس کے مردہ جسم  کو دیکھتے ہوئے سوچ رہے ہیں کہ شاید ہم بہت پہلے کچھ ایسا کرتے کہ  یہ اسے یہ احساس ہوجاتا کہ وہ تنہا نہیں  ۔لیکن اب ،         کچھ نہیں بچا تھا سوائے  حقیقت کو تبدیل کرسکنے کے  ایک شدید پچھتاوے کے۔حقیقت میں تو   وقت  میں سفر ممکن  ہی نہیں ہے،  اگر آپ انسانیت کا احترام کرتے ہیں تو ایک چھوٹا سا قدم ہی اٹھا ئِیے کہ انسانوں کی مدد کرکے انہیں ان ہی کا ایک روشن روپ دیکھنے میں ان کی مد د کیجئے جہاں انسان ایک دوسرے کے لئے بنے ہوں نہ کہ دوسرے  کی  زندگی پر حکومت کریں یا اسے حقیر بنادیں۔”

اب وقت آگیا ہے:دوسروں کو دکھ دینے یا ان پر تنقید کرنے سے پہلے ایک بار ضرور سوچئے کیونکہ آپ کوکبھی پتا  بھی نہیں چلے گا کہ  وہ کس اندرونی  ہلچل سے گزررہے ہیں اور آپ کا ایک لفظ ان کی پوری ہستی کو  الٹ پلٹ کر رکھ دے گا۔ہمیں ہمدلی اور دردمندی کے اصول پر سب کو مل کر کام کرنا ہوگاتاکہ اپنے ارد گرد لوگوں کو سمجھ سکیں۔خودکشی کا سوچنے والا شخص  ممکن ہے کسی سے مدد نہ مانگے،  لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ  اسے مدد کی ضرورت نہیں۔ جو لوگ اپنی جان لے لیتے ہیں وہ مرنا نہیں چاہتے—- وہ  بس اپنے دکھ  کا خاتمہ  چاہتے ہیں۔ اگر آپ کو ایسا لگے کہ آپ کا / کی کوئی دوست یا خاندان کا کوئی شخص خودکشی کے بارے میں سوچ رہا / رہی ہے تو ہوسکتا ہے آپ اْس  سے اِس موضوع پر بات کرنے سے خوفزدہ ہوں۔ لیکن  خودکشی کے خیالات اور جذبات کے بارے میں کھل کر بات کرنے سے  ایک زندگی بچ سکتی ہے۔