لسانی تعصّب

ہم نے ذہنی صحت کی آگاہی پروگراموں  کو دور دور تک پھیلانے میں کافی پیش رفت کی ہے لیکن اس کے باوجودتعصّبات  کی شکل میں کئی خلا اب بھی موجود ہیں جوہمارے پورے نظام کو  خراب کررہے  ہیں۔ذہنی بیماری عام ہے لیکن  اسے اب بھی اکثر صحیح طور سے سمجھا نہیں جاتا۔جو تصور ہم قائم کرتے ہیں اور جن کے ذریعے ہم ارد گرد سے آنے والی معلومات   پر عمل کرتے ہیں اس نے  ذہنی بیماری سے وابستہ تعصّب  کو اور گہرا کردیا ہے۔ ہمارے پرانے  چلے آرہے  انداز میں یہ کہہ دینا کتنا آسان ہے کہ کوئی ذہنی  طور پر پسماندہ یا نفسیاتی ہے اور ہم  غیر ارادی طور سے اْس شخص کی اس تکلیف کو نظر انداز کردیتے ہیں جو مشکلات کے ایک سلسلے کی شکل میں اس پر گزری ہے۔ہم جس انداز میں ذہنی بیماری کے بارے میں بات کرتے ااور میڈیا ، سوشل میڈیا ،      اپنےگھروں اور  دفتروں  میں عام  اظہارِخیال کرتے ہیں  اس سے  جسمانی یا ذہنی بے اعتدالی  کے بارے میں تصور قائم کرنے میں کافی فرق پیدا ہورہا ہے۔

ذہنی بیماری کے بارے میں ایک خاص انداز میں بات کرنے کی وجہ سے کمیونٹی کے  لوگ  الگ تھلگ ہوجاتے ہیں، مسئلہ  سنسنی خیز ہوجاتا ہے اور اس سے بدنامی اور تعصّب  میں اضافہ ہوتا ہے۔کچھ لفظ ایسے ہیں  اور ہم ان کے استعمال کے اتنے عادی ہوچکے ہیں کہ  غیر ارادی طور سے  بغیر سوچے سمجھے کہ ان میں کتنی بدنامی  اور تعّصب  چھپا ہوا ہے، زبان سے نکال دیتے ہیں۔ یہ الفاظ جیسے ” تم تو پاگل ہو”،     ”  خْسرا  ” ،    ”نفسیاتی ”،        ”شیزو” ،  ” پاگل”  ،  وہمی ”،   ” شدید نفسیاتی مریض” ،   ” دماغ خراب ہے”  ) “tum tou pagal ho”, “Khusra”, “psycho”, “schizo”, “mad”, “anorexic”, “psychotic”, “dimagh khraab hai”(ہماری روزانہ بول چال   میں عام استعمال ہوتے ہیں یہ سوچے سمجھے بغیر  کہ یہ الفاظ طاعون کی طرح ہیں  اور یہ کہ ایسے حالات میں  ان کو کیسا لگتا ہوگا جن کے بارے میں یہ الفاظ کہے جاتے ہیں۔دنیا بھر میں زبان اور سیاق و سباق کے ساتھ ا س کی سمجھ پر زبردست بحث مسلسل ہورہی ہے جس سے زبان کے استعمال میں کچھ حقیقی تبدیلیاں ہوئی ہیں۔مثال کے طور پر،                    ماہرین سماجیات اور آثارِ قدیمہ   لفظ طوائف کی جگہ جنسی ورکر کے استعمال پر کام کررہے ہیں کیونکہ لفظ طوائف سے  جبری اور غیر قانونی جسم فروشی کی  بدنامی میں حقیقی اضافہ ہوا ہے۔امریکن سائیکالوجیکل ایسوسی ایشن  نے  ذہنی پسماندگی کے بارے میں ایک نئے  لفظ   ذہنی معذوری( Intellectual Disability ID)   کاتعارف کرایا ہےجو ذہانت اور  حالات کے اعتبار سے کام کرنے  کی اوسط  سے کم درجے کی صلاحیت  کو بیان کرتا ہے یہ   ابھی ارتقائی دور ہے  تاکہ ذہنی پسماندگی کا شکار افراد  پر لگے بدنامی کے دھبّے  سے نمٹا جاسکے  ۔

ان   اختلافات کو سامنے لانے کی شدید ضرورت ہے جو  ارادی یا غیر ارادی طور سے زبان میں بدنامی  کے الفاظ کو بڑھا رہے ہیں۔اس بدنامی کا  نیوکلیائی  اثر کیوں  ہوتا ہے؟ہماری زندگی کو شکل دینے میں  اور جس طرح  ہم دنیا کا تصور قائم کرتے اور اس کی تشریح کرتے ہیں  اس میں زبان کا بہت بڑا اثر ہوتا ہے۔ہم کسی صورتحال  کے بیان میں محض  مبالغہ آرائی یا کسی کو تنگ کرنے  کے لئے میٹھے سے طعنے  استعمال کرتے ہیں تو اس کا بھی ہلکا لیکن  دیرپا اثر اس کی بنیادی تشریح پر  ہوتا ہے۔اگر ہم ہر لفظ کو ٹکڑے کر کے دیکھیں توہمیں  ان  وابستگیوں کا پتا چلے گا جو ہمارے ذہن نے ان  تعصّب  بھرےالفاظ  سے جوڑ رکھی ہیں۔ہمارا ذہن کسی بھی قسم کی معلومات کو ایک خاص خاکے میں لاکے دیکھتا ہے ) تصویریں، الفاظ سے وابستہ معنی،  حقائق،  روایتیں(  اور پھر قابلِ عمل خیال کی شکل دیتا ہے۔اگر ہم کسی سے کہتے ہیں۔’ ‘ پاگل ہوتم”  جو محض مبالغہ ہوتا ہے اور ہم   واقعی اسے پاگل نہیں کہہ رہے ہوتے تو بھی  ہمارے ذہن میں مخصوص معنی ہوتے ہیں کہ لوگ کتنےجنونی دکھائی دیتے ہیں۔ہمارا ذہن  یہ مربوط تعلق اس طرح بناتا ہے۔

لہذا یہ بات واقعی اہمیت رکھتی ہے کہ ہم  جو کہیں اس کے معنی  عام طور پر زبانی اور ارادی اعتبارسےایک دوسرے سے متعلق   ہوں ۔الفاظ ہماری زندگی کے بہت بڑے حصے کو گھیرتے ہیں اور ان کی ادائیگی  ان افراد سے  انفرادی تعلق    رکھتی ہے جن سے ہم بات چیت کرتے ہیں بلکہ  وہ عوام کے درمیان زبان سے متعلق خاکوں کو تشکیل دینے کے لئے عام طور سے ایک مقررّہ  پیمانے کی طرح استعمال  کئے جاتے ہیں  ۔میرے خیال میں ہم سب کو ان الفاظ کے استعمال سے پرہیز کرنا چاہئیے جن کا مطلب ذلیل کرنا ہوکیونکہ  اس سے مکمل بدنامی  مزید پھیل جاتی ہے اور اس الفاظ سے وابستہ ہماری اعصابی وائرنگ  مزید طاقتور ہوجاتی ہے۔