لوگ کیا کہیں گے؟

ہمارے معاشرے میں اس جملے کی گونج بہت سنائی دیتی ہے۔مجھے امید ہے کہ ہم سب نے اسے مختلف موقعوں پرساتھیوں کے  تصوراتی یا جبری دباؤکے تحت کئی بار  سنا اور خود  بھی ادا کیا ہوگا۔ہمارے ماحول میں ہمیشہ کچھ اصولوں کی پابندی،   کچھ  ظاہری  چیزوں  کو برقرار رکھنے اور  توقعات پر پورا اترنے   کا سلسلہ رہا  جو گھورتی نظروں کی وجہ سے  کرنا پڑتا ہے۔ ”لوگ کیا کہیں گے”   کا یہ  رحجان ساتھیوں اور  ماہرین سے مدد  اور تعاون حاصل کرنے میں ہمیشہ رکاوٹ رہا ۔کبھی آپ نے یہ بھی سوچا کہ یہ ”لوگ”               ہیں کون ؟ آخر یہ کون ہیں جو کمزوری کو دباتے اور تعصّب کو ہوا دیتے ہیں؟مزے کی بات یہ ہے کہ یہ خوف  ”   مجھے سب پتا ہے”  کے تصور  کے دکانداروں کی مشین پربکِتا ہے اور ہم اس رول پلے  سرگرمی  میں گھِر کے رہ جاتے ہیں۔   اس سے مخالف اور بے حس  فیصلے جنم لیتے ہیں جن کے پیچھے اصل مسئلے کے بارے میں  کوئی تحقیق  یا گہری سمجھ بوجھ نہیں ہوتی ۔

دوسرے لوگ کیا کہیں گے  یا کیا سوچیں گے کے بارے میں بہت زیا دہ فکر کرنا ہماری ثقافت میں عام ہے اور ہمارے پیداہوتے ہی دماغ میں بھر دیا گیا ہے۔اس  اجتماعی  ثقافت کی وجہ سے ہماری  زندگیاں  ان گھورتی نظروں  میں جیسے  بندھ گئی ہیں۔یہ فیصلےیا رائے خواہ کتنی ہی  عجیب کیوں نہ ہوں  ہم سب ہی ”  لوگ کیا کہیں گے”  کی سوچ کے آگے جھک جاتے ہیں۔مجھے اپنی ثقافت سے کئی اور چیزوں کی وجہ سے مھبت ہے لیکن ”  لوگ کیا کہیں گے” کا  آئیڈیا   یہ ظاہر کرتا ہے کہ برصغیر کی ثقافت  کا کتنا حصہ شرم یا احسا سِ جرم  سے جڑا ہے۔ ہم میں سے کتنے لوگ وہ کام کرنے پر مجبورہیں جو ہم نہیں کرنا چاہتے محض اس  خوف سے کہ دوسرے لوگ کیا سوچیں گے یا ہمارے بارے میں کیا کہیں گے۔ہم  ڈگری کے لئے وہ مضامین منتخب  کرنے پر مجبور کردئیے جاتے ہیں جو ہم پڑھنا نہیں چاہتے۔ کیرئیر جو ہمیں پسند نہیں  اور وہ شریک حیات جو ہمیں اچھے ہی نہیں لگتے ۔ ہم اپنی آواز کو رد کرکے ان  کے فتوے کی توثیق کرتے ہیں۔یہ ہم ہی ہیں جنہوں نے ”  لوگ کیا کہیں گے” کےمظہر کو اہمیت دلوادی ہے اور یہ ہم ہی ہیں جو اس کے نتائج بھگت رہے ہیں۔

مجھ سے کئی بار چند سوشل میڈیا پوسٹس کو ہٹانے کے لئے کہا گیا   صرف اس خوف سے کہ میرے جاننے والے میرے بارے میں کیا سوچیں گے،  میری  آزاد خیال سوچ کا شدید ردِّ عمل ہوگا۔میرے کچھ ساتھی ڈگری کے لئے حیاتیات یا انجینئیرنگ لینے پر مجبور ہوگئےجبکہ وہ اداکاری سیکھنا یا فوجی اسکول میں پڑھنا چاہتے تھے۔’  لوگ کیا کہیں گے” نہ صرف ہمیں  اس سے روکتا ہے جو ہم واقعی حاصل کرنا چاہتے ہیں بلکہ  یہ فرسودہ اور عجیب و غریب   روایتوں اور رویّوں  پر چلنے اور انہیں قبول کرلینے  کے لئے کنٹرول اور حاکمیت کا ایک جبری طریقہ ہے۔  یہ مردوں اور عورتوں  دونوں کی  گھریلو تشدد اور عصمت  دری پر آواز بلند کرنے کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔اس کو  شادی شدہ جوڑوں سے بچے پیدا کرنے  پر  زور دینے  اور ان لوگوں کو اپنی نسل یا مذہب سے باہر شادی کرنے سےباز رکھنے کے لئے  استعمال کیا جاتا ہے جو کسی سے محبت کرتے ہیں۔کچھ لوگ اعتراف نہیں کرپاتے کہ وہ منشیات استعمال کرتے ہیں اور ڈپریشن کا شکار رہے ہیں محض اس وجہ سے کہ ”  لوگ کیا کہیں گے”۔ اس  خرابی کی وجہ سے ہم  سب کسی جسمانی  اور ذہنی غیر صحت مند متبادل تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کچھ لوگ پیروں یا نجومیوں  کے پاس  جاکے اپنے مسئلوں کاحل تلاش کرتے ہیں  دوسرے اپنے نفسیاتی مسئلے کو جسمانی بیماری کی آڑ میں چھپالیتے ہیں۔ اور کچھ بد قسمت افراد اسی خوف سے خودکشی کرلیتے ہیں۔یہ تعصبّات روز بروزپھیلتے جارہے ہیں اور معاشرے میں مزید الجھن اور بگاڑ  پیدا ہورہا ہے۔

اب وقت آگیا ہے کہ  اس خوف کو ختم کیا جائے تاکہ لوگ  سماجی   تعصّب  کی وجہ سے پچھتانے کی بجائے ایک طرفہ طور پر اپنے دل اور دماغ  کی سنیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ” لوگ کیا کہیں گے” ایک زہریلا تصور ہے جو ان لوگوں کو خاموش کرنے کی کوشش کرتا ہے جو ہماری ثقافت کی خرابیوں کی نشان دہی کی کوشش کرتے ہیں۔آخر ہم دوسروں کے کہنے کی پرواہ کیوں کریں؟آخر ہم دوسروں کی توقعات کے مطابق اپنی زندگی کیوں گزاریں؟ ہم اسے اپنی ذاتی زندگی اور فیصلوں  میں دخل دینے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ہم اس ذہنیت کو اپنی زندگی کے فیصلوں پر حکم چلانے کا موقع نہیں دے سکتے کیونکہ آخر کار یہ زندگی ہمیں گزارنا ہے کسی اور کو نہیں۔یہ ہماری زندگی کی کہانی ہے اور ہم کسی کو اپنی ذاتی انفرادی کہانی   کا پلاٹ بیان کرنے  کی اجازت نہیں دے سکتے۔

ہم سب کو  اپنے روزانہ   کے ہرمعمول سے اس خوف کو نکال پھینکنا ہے جواس کی جگہ  تنقیدی سوچ اور  ذہن کے موزوں متبادل کو خوش آمدید کہہ کے کرنا ہوگا۔ہمیں اس رول پلے سرگرمی  کو نئی شکل دینا ہوگی  جس     میں ہم دونوں  سوچیں ایک ساتھ نہیں اپنا سکتے۔ یہ نکال پھینکنے کا آغاز ” ہم کیا سوچتے ہیں دوسروں کے بارے میں ؟”  سے ہوگا۔ اگر یہ سوچ  تبدیل ہوکے ” ہم لوگوں کو ان کی زندگی کے فیصلوں   سے نہیں پرکھیں گے”  ہوجائے تو یہ سوچنے کے انداز میں تبدیلی کی طرف پہلا قدم ہوگا۔ اس سے بے شمار لوگوں کو اپنے  ذہنی صحت کے اصل مسئلوں کے بارے میں کھل کر بات کرنے میں مدد ملے گی اور انہیں  معاشرے کی گھورتی آنکھوں  سے اپنے بارے میں رائے قائم کئے جانے اور رابطے ختم کئے جانے کا خوف نہیں ہوگا۔