خود کو خول میں بند نہ کیجئے- جبین
میں جبین ہوں۔ میں ایک مصورہ اور بلاگر ہوں۔ اپنی ماں اور بہن کے ساتھ رہتی ہوں ۔ فالتو وقت میں کھانا پکانا اور مطالعہ کرنا مجھے پسند ہے۔
میں نے پوری زندگی خود کو خول میں بند رکھا ہے۔ شاید اس ماحول کی وجہ سے جس میں ، میں پلی بڑھی۔میں ہمیشہ تھکی تھکی اور بوجھل سی رہتی۔میرے دل میں جیسے کوئی خلا سا تھا۔اور پھر ایک ایسا وقت آیا کہ میں زندگی سے بیزار ہوگئی۔مجھے زندگی میں کوئی امید یا کوئی مقصد نظر نہیں آتا تھا۔میرے سامنے کوئی مستقبل نہیں تھا۔مجھے ایسا لگتا تھا جیسے میں ایک بےحد ناکام انسان ہوں کیونکہ میرے پاس کوئی ملازمت بھی نہیں تھی، میری عمر کے لوگوں کے دوست ہوتے تھے اور وہ سب خوب گھومتے پھرتے، ملازمت کرتے اور ان کا گھر بھی اہل خانہ سے بھرا ہوتا۔جبکہ مجھے اپنا خاندان اس وقت سے نامکمل لگتا تھا جب سے میرے والد کا انتقال ہوا تھااور مجھے اپنی سہیلیوں کے ساتھ باہر جاتے ہوئے یا محض عام سی باتیں کرتے ہوئے بھی شدید اینگزائٹی محسوس ہوتی تھی۔ دن کے عین درمیان میں مجھے وحشت کے دورے پڑا کرتے خاص طور پراس وقت جب مجھے پرْہجوم جگہوں پر جانا پڑے۔ مجھے نہ بھوک لگتی تھی نہ مجھ میں توانائی باقی تھی۔میں سارا دن بستر پر پڑی رہتی۔ مجھے سانس لینے میں تکلیف ہوتی۔ میں ایک نامراد سی بیٹی تھی۔ بس مجھے مرنے کی تمنّا تھی اور کچھ نہیں۔
مجھے معدے میں السر بھی ہوگیا کیونکہ مجھ پر بہت زیادہ دباؤ رہتا تھا۔میں اپنی ڈاکٹر کے پاس گئی کیونکہ مجھے ایسا لگنے لگا تھا جیسے میری روح نچوڑی جارہی ہےاور انہوں نے مجھے ڈپریشن دور کرنے کی دوا دے دی۔اسپتال اتنی دفعہ جانے سے مجھے وحشت کے دورے پڑنے لگے اور میری حالت مزید بگڑ گئی۔ تب میری ڈاکٹر نے مجھے ایک سائیکیا ٹرسٹ کے پاس بھیج دیا اور وہاں جاکے مجھے معلوم ہوا کہ مجھے بائی پولر ڈس آرڈر ہے اور یوں میرا علاج شروع ہوگیا۔
میں نے اندازہ لگالیا تھا کہ خالی دواؤں سے میرا کام نہیں بنے گا۔میں نے اتنے سال بالکل سست اور کھوئے کھوئے رہ کر گزارے تھےکہ اب میں خود کو بہتر دیکھنا چاہتی تھی۔علاج سے مجھے اپنی زندگی میں امید کی روشنی نظر آنے لگی۔ مجھ میں زندگی انگڑائیاں لینے لگی۔ مجھے یاد آگیا کہ میں کون ہوں اور میری امنگیں اور میرے خواب کیا تھے۔میں نے ورزشیں شروع کیں اورصحتمند غذا پر توجہ دینے لگی۔میں اپنے بلاگ میں روزانہ اپنے احساسات لکھنے لگی۔ اپنے محسوسات کے اظہار کے لئے یہ ایک محفوظ ذریعہ تھا۔ میں نےاپنی ایک تصویربھی بنا ڈالی اورآرٹ کے کچھ پروجیکٹس شروع کردئیے تاکہ اس میں ذہنی بیماری اور اپنے احساسات کو تصویری شکل دے سکوں۔
سب سے مشکل کام اپنے خاندان اور معاشرے کو یہ قبول کروانا تھا کہ مجھے ڈپریشن ہے۔ لوگ اسے بیماری ہی نہیں سمجھتے۔وہ سمجھتے ہیں کہ میں زیادہ کوشش نہیں کرتی یا میں بس کاہل ہوں۔پھر دواؤں پر انحصار کرنا بھی مشکل تھا کیونکہ مجھے معلوم ہوگیا تھا کہ اب مجھے ساری عمر اس بیماری کے ساتھ گزر کرنا ہے۔
:جو لوگ یہ تحریر پڑھ رہے ہیں میں آپ سے صرف دو باتیں کہنا چاہونگی
- اپنے آپ کو خول میں بند نہ کیجئے۔ جو کہنا چاہیں اس کے اظہار کے لئے دوسرے طریقے اپنائے جاسکتے ہیں۔خاموش رہنے سے کسی دوسرےکی مدد نہیں ہوتی بلکہ خود اپنی تباہی ہوتی ہے۔
- اگر طویل عرصے سے آپ پرتھکن یا بوجھل پن طاری ہے تو ڈاکٹر کے پاس جانے سے ہچکچائیے نہیں۔خاص طور پر سائیکاٹرسٹ یا تھیراپسٹ کے پاس جانا بڑی بہادری ہوگی۔اس سے بچنے کی کوشش نہ کیجئے گا۔