تسکین ہیلپ لائن نمبر: 8275336 316 92+

حفصہ کی کہانی

حفصہ:آپ کا تحفظ بہت اہم ہے

میرانام حفصہ ہے اور میں اسپیچ لینگویج پیتھالوجسٹ بننے والی ہوں۔ میں جو تعلیم حاصل کررہی ہوں وہ لوگوں کے کام آئے گی۔یہ بحالی کا کام ہے۔ میرے اپنے اہل خانہ میں اختلال دو قطبی کے مریض موجود ہیں: میرے نانا، میری والدہ اور میرا بھائی۔ہم سب ساتھ ہی رہتے ہیں۔

میں ایسے لوگوں کے ساتھ پلی بڑھی ہوں جن کی ضروریات مخصوص تھیں۔ پھر میں نے اسی جیسا پیشہ منتخب کرلیا،ایک ایساپیشہ جس میں میرا بہت وقت درکار ہوتا ہے،اور یہی صورتحال گھر میں بھی ہے۔

وہ تینوں ڈاکٹر ہیں اور اسی لئے اپنی حالت سے بخوبی واقف ہیں۔ لیکن پھر بھی ان کے لئے اس سے نمٹنا مشکل ہے۔اسی لئے میں نے لاشعوری طور پر ان کی دیکھ بھا ل اپنے ذمے لے لی جبکہ مجھے یہ بھی علم نہیں تھا کہ جو میں کررہی ہوں وہ کیا ہے۔ایک بچی ہونے کی حیثیت سے مجھے یہ تو احساس تھا کہ کچھ نہ کچھ مختلف ہے لیکن یہ خبر نہیں تھی کہ یہ ذہنی بیماری ہے۔ میری ماں میری سہیلیوں کی ماؤں کی طرح نہیں تھیں۔ مجھے پتا تھا کہ وہ دوا کھاتی ہیں اور کبھی کبھی وہ غصے میں آجاتی ہیں۔ میں اس وقت گیارا سال کی تھی جب میرے بھائی نے مجھے بتایا کہ وہ بھی اپنے اختلال دو قطبی کے لئے دوا شروع کرنے والے ہیں۔ تب مجھے پتا چلا کہ یہ کوئی بیماری ہے، حالانکہ یہ آپ کو نظر نہیں آتی۔ دوقطبی یا بائی پولر انتہاؤں سے عبارت ہے، ہائپو مینیا اور ڈپریشن۔ اور یہ مرحلہ وار آتی ہے۔اور یہ سمجھنے میں مجھے کچھ وقت لگ گیا کہ کبھی کبھی ان کا رویہ ان کی بیماری کا نتیجہ ہوتا ہے وہ خود ایسے نہیں ہوجاتے۔

اپنی نانی اور والد کے ساتھ مل کر میں نے اپنے بھائی، ماں اور نانا کی دیکھ بھال شروع کردی،کافی عرصے بعدمجھے احساس ہوا کہ اس سب کا اثر مجھ پر پڑ رہا ہے۔جب میں سولہ سال کی ہوئی تو مجھے وحشت کا پہلا دورہ پڑا۔ مجھے پتا بھی نہیں چلا اور خوف نے مجھے گھیرے میں لے لیا۔اختلال دو قطبی کی اچانک کیفیت جس کی پیشین گوئی نہیں کی جاسکتی، بہت مشکل ہوتی ہے۔ اچانک پھٹ پڑنا یا اچانک خودکشی کی کوشش۔ اس اچانک کیفیتوں نے واقعی مجھے وہمی بنادیا، میں ہمیشہ منتظر سی رہتی ہوں۔ یہ یہاں تک پہنچا کہ صحت پر خراب اثر پڑنے لگا۔ مجھے بہت پریشانی ہو گئی کہ مجھے بھی ذہنی بیماری ہے۔ وحشت کے یہ دورے کئی بار اور بہت شدید ہواکرتے تھے۔ میں نے سمجھ لیا کہ بات میرے ہاتھ سے نکل رہی ہے۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اب کچھ ہونے والا ہے، اور یہ میرے مستقل دورے چھوٹی سے چھوٹی بات سے امنڈ آتے۔ میں ایک کمرے میں بیٹھی ہوتی اور پردہ ہلتا تو میں خوف کے مارے جم جاتی۔ خوف نے مجھ پر اتنا غلبہ پالیا تھا کہ میں عملًا ناکارہ ہوگئی تھی۔ سال گزرتے رہے اور میں نے کچھ ضابطے بنالئے کہ میں اس کو خود پر حاوی نہیں آنے دونگی۔ میں نے اسے دبانے اور دورے کی شدت سے پہلے اسے منطقی طور پرسمجھنے کی کوشش کی۔ میں اپنے آپ سے سوال کرتی، ”کیا واقعی مجھے کوئی خطرہ ہے؟“ اور خود کو سمجھاتی کہ مجھے کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔

مجھے نفسی جسمانی عارضہ(سائیکومیٹک ڈس آرڈر) ہے چنانچہ جب کوئی دباؤ پڑتا ہے تو میرے جسم پر اس کا ردعمل ہوتا ہے۔ مجھے قے ہوجاتی ہے، معدے کا تیزاب میرے گلے میں آجاتا ہے، سر میں درد ہونے لگتا ہے، پیٹ میں تکلیف شروع ہوجاتی ہے، یہ تمام جسمانی علامتیں ذہنی دباؤ کی ہیں۔اس لئے شروع میں ہم اس کی جسمانی وجہ سمجھ نہیں سکے۔ خون کے ٹیسٹ میں کوئی علامت نظر نہیں آتی تھی۔ تو ہم ماہر نفسیات کے پاس گئے اور مجھے تو یقین ہی نہیں آیا کہ مجھے یہ سب ہورہا ہے۔ کیونکہ باوجود اس کے کہ دیکھ بھال کرنے کے تجربے کی وجہ سے میں خود کو بیماروں کی صف میں شامل نہیں کرنا چاہتی تھی۔ میرے لئے یہ مان لینا ایک بڑا مرحلہ تھاکہ مجھے خود مدد چاہئیے اور مجھے ہمیشہ معالج بنے رہنے کی ضرورت نہیں۔ جب میں ماہر نفسیات کے پاس گئی تو انہوں نے کہا کہ مجھے اختلال دو قطبی نہیں ہے البتہ میرے ارد گرد کا ماحول مجھ پر اثر ڈال رہا ہے۔

دوسروں کی دیکھ بھال اور پھر اپنی دیکھ بھال اب بھی بڑی مشکل بنی ہوئی ہے۔ میں اپنی خبر رکھنا اکثر بھول جاتی ہوں۔ لیکن ضرر۔ کنٹرول یعنی میرا محافظ بیدار رہتا ہے اور میں اپنی ماں اور بھائی کے بارے میں فکر مند رہتی ہوں۔

تھراپی،یعنی بولنے کے ذریعے علاج، نے مجھے یہ سمجھنے میں مدد دی کہ میں نے اگر اپنی دیکھ بھال نہ کی تو میں دوسروں کی مدد جاری نہیں رکھ سکونگی۔خالی جگ سے آپ کیا انڈیل سکتے ہیں؟اگر آپ کے پاس کچھ نہیں تو آپ کسی کو کچھ دے کیسے سکتے ہیں۔

میرے لئے یہ بہت ضروری ہے کہ میں اپنی تعلیم میں مصروف رہوں۔ یہ ضروری ہے کہ میں خود کو محدود نہ کروں۔ میرا کام اور لینگویج پیتھا لوجسٹ تعلیم کی وجہ سے مجھے گھر سے باہرنکلنے میں مدد ملتی ہے اور میں چیزوں کو ایک مختلف تناظر میں دیکھ سکتی ہوں۔

دراصل میں کسی سے یہ سننا چاہتی تھی کہ یہ کوئی بیماری ہے،اور یہ ان کی شخصیت میں نہیں ہے۔یہ بات بہت اہم ہے کہ جوبھی کسی تکلیف میں مبتلا ہو پہلے اسے ایک فرد کی حیثیت سے دیکھا جائے اور پھر اس کی بیماری کو۔ صرف اسی صورت میں آپ ان کی مدد کرسکتے ہیں اور تب ہی وہ بھی خود کو مطمئن پاکے آپ کے سامنے کھل سکیں گے اور مدد لے سکیں گے۔ مریضوں کے لئے سب سے بڑا قدم اپنی بیماری کو تسلیم کرنا اور مدد طلب کرنا ہوتا ہے۔ یہ حوصلہ ان میں تب ہی آئے گا جب آپ اچھی طرح ان کی مدد کررہے ہونگے۔ جیسے ہم نے اپنے بیمار اہل خانہ کوایک طویل عرصے تک مریض ہی سمجھا۔ ہمیں ان سے کوئی توقع نہیں تھی، ہم نے ان کی بیماری کو قبول کیا اور انہیں خاصی چھوٹ دئیے رکھی۔ میرے خیال میں یہ غلطی تھی۔ وہ خود کو بے کار سمجھنے لگے، جیسے کہ وہ محض ایک بیماری ہوں، اور خاندان اور دنیا کے لئے کچھ نہ کرسکتے ہوں۔یہ بہت ضروری ہے کہ ہم ذہنی امراض کے شکار افراد کو اپنی زندگی میں شامل کریں۔

یہ بھی سمجھنا ضروری ہے کہ دیکھ بھال کرنے والے کی حیثیت سے آپ کااپنا تحفظ لازمی ہے۔ اگر دیکھ بھال کرنے والے کے ساتھ جذباتی یا جسمانی بدسلوکی ہورہی ہو تو یہ قطعا ًناقابل قبول ہے۔اگر آپ خود کو محفوظ نہ سمجھتے ہوں یا آپ کو دھمکایا جائے لیکن آپ اسے برداشت کرتے رہیں کیونکہ ایسا کرنے والے بیمار ہیں تو اس کا نتیجہ سب کے لئے خراب ہوگا۔ تو سنئیے دیکھ بھال کرنے والو! آپ کا تحفظ اہمیت رکھتا ہے اور اس پر کسی قیمت پر بھی سمجھوتا نہ کیجیے گا۔