تسکین ہیلپ لائن نمبر: 8275336 316 92+

رومیلا کی کہانی

اپنی کامیابی کی چمک سے دوسروں کی دنیا روشن کیجئے- رومیلا

میں رومیلا حمید ایک سماجی کارکن، حوصلہ پیدا کرنے والی مقرر ہ اور لکھاری، آج کل ایمپاور پاکستان میں ٹرانسکرپشن انالسٹ کی حیثیت سے کام کررہی ہوں۔اور آسٹریلیاایوارڈ اسکالرشپ 2018ءکی جانب سے نوجوان ابھرتی ہوئی رہنما بھی منتخب ہوئی ہوں۔میں جسمانی طور پر معذور ہوں اور کئی سال سے انسانی حقوق کی کارکن اور رہنما برائے معذوری کی حیثیت سےخصوصی طور سے معذور افراد  کے حقوق خاص طور پر معذور خواتین کے لئے کام کررہی ہوں ۔

اکتوبر 2005 ءمیں زلزلے کے جھٹکے صرف چند سیکنڈ جاری رہے لیکن اس نے متاثرہ لوگوں کی زندگی پر دیرپا اثر چھوڑا۔ مجھے اس کا ذاتی تجربہ ہوا کیونکہ میری ریڑھ کی ہڈی کا مہرہ  ٹوٹ گیا یہ زخم کے پیمانے کے مطابق اے درجے کاتھا اور میرا آدھا دھڑ بے کار ہوگیااور جب تک کوئی سائنسی معجزہ مجھے اپنے پیروں پر کھڑا نہیں کردیتا میں ساری زندگی وہیل چئیر کا سہارا لینے پر مجبور ہوگئی۔میری ذاتی معذوری ہی ایک صدمہ نہیں تھا میری دو بہنیں بھی جان سے گئیں ، ایک نے تو کھلے آسمان کے نیچے اور زلزلے کے بعد ہونے والی موسلادھار بارش میں میرے والد کی گود میں دم توڑدیا کیونکہ اس کا خون بہت بہہ گیا تھا ۔ میری چھوٹی بھابی بھی اس المناک حادثے میں جان گنوابیٹھیں۔

حکومت پاکستان اور متحدہ عرب امارات کے درمیان ایک انتظام کے تحت خوش قسمتی سے مجھے ایک گروپ میں شامل کرلیا گیا جس کا علاج متحدہ عرب امارات میں ہونا تھا۔ جزیرہ ہسپتال، جسے اب ایس کے ایم سی کہا جاتا ہے ، میں میری ریڑھ کی ہڈی کا آپریشن کامیاب رہاجس سے میں بستر یا وہیل چئیر پر بیٹھنے کے قابل ہوگئی البتہ مجھے اس کے لئے مدد کی ضرورت پڑتی ہے۔ سارا وقت بستر پر سیدھا پڑے رہنے سے یہ ایک یقینی بہتری تھی لیکن یہ خوشی چند روز رہی کیونکہ اصل امتحان تو ابھی باقی تھےجب میں ایک بہت نرم دل اور زبردست ماہر ڈاکٹر گیریزن کی نگرانی میں اسپتال میں بحالی کے عمل سے گزری ۔

ڈاکٹر گیریزن اور ان کی فزیوتھراپسٹ ٹیم نے ہمیں جسمانی طور پر تو تیار کیا ہی تھا اس کے علاوہ ہمیں ذہنی اور جذباتی طور سے بھی توانا رہنے کی تلقین کی۔ زلزلے سے پہلے میں کشمیر کے ایک پہاڑی علاقے میں ایک حسین جگہ رہتی تھی اگرچہ یہ ایک دوردراز پسماندہ علاقہ تھا ۔مجھے معلوم ہوگیا تھا کہ اصل چیلنج تو ابھی آنا تھے اور ابو ظہبی کے اس شانداراسپتال میں، جہاں عوامی ہمدردی کا ایک سیلاب بہتا رہاتھا ،میرا یہ قیام تو مختصر مدت کے لئے تھا۔

جب میں گھر واپس آئی تو وہیل چئیر پر بندھے رہ کر زندگی گزارنےکے چیلنج کے بوجھ تلے دبی ہوئی تھی ۔بحالی کے دوران میرے کئی ساتھی جلد ہی ناامید ہونے لگےاور میں نے بحالی مرکز میں ساتھیوں کی کونسلنگ شروع کردی۔میں نے جو کچھ ڈاکٹر گیریزن سے حاصل کیا تھا وہ انہیں سکھانے کا مشکل کام سنبھال لیا جس میں خود کو سنبھالنے کی صلاحیت اور وہیل چئیر پر ایک خوب متوازن زندگی اور خود پر انحصار کرنے کی ترغیب دینا شروع کردی ۔

جب میں اپنے والدین کے ضلع باغ میں پہاڑ پر دوبارہ بنائے گھر میں منتقل ہوئی جہاں سے نیچے جانے کے لئے ایسی عمودی شکل میں وہیل چئیر چلانی پڑتی تھی کہ دل اچھل کر حلق میں آنے لگتا تھا۔ گھر کے مرد حضرات اپنے روزمرہ کے کاموں سے نکل جاتے اور دو زندہ بچ جانے والی بہنیں اور بھتیجیاں کالج اور اسکول چلی جاتیں تو میں گھر پر پڑی رہ جاتی، کبھی تو بالکل اکیلی ہوتی، نیچے باغ کی وادی کو دیکھتی رہتی جہاں سے میں روزانہ اسکول جایا کرتی تھی اور اب میں یہاں وہیل چئیر میں بیٹھی ہوئی تھی اور وہاں جا بھی نہیں سکتی تھی کیونکہ راستہ مشکل تھا۔ دوسرے ترقی پزیر ملکوں کی طرح پاکستان کے سب سے زیادہ ترقی یافتہ شہروں میں بھی وہیل چئیر میں زندگی گزارنا ایک جدوجہد ہے تو ہمارے علاقے میں تو یہ جدوجہد بہت ہی مشکل ہے جس میں لاپرواہ اور کمزور اعصاب والوں کی کوئی جگہ نہیں ۔جب میں ہیلن کیلر کے بارے میں پڑھا کرتی تھی تو اکثر سوچا کرتی کہ اس سبق کو ہمارے اسکول کے نصاب میں کیوں شامل کیا گیا تھا ۔ ان کی جدوجہد کے بارے میں پڑھ کے میں نے بھی کھڑے ہوجانے اور اس منزل تک پہنچنے کا عزم کر لیا جس کا نقشہ ڈاکٹر گیریزن کی پیدا کی ہوئی تحریک اور ابو ظہبی سے سی 130 طیارے میں گھر واپس آتے ہوئے میں نے تیار کیا تھا۔

پہلا مرحلہ تو پہاڑ سے اتر کر شہر پہنچنے کا تھا جہاں میں تعلیم جاری رکھ سکوں۔ لہذا میں نے گھر میں تقاضا شروع کردیا جس کو سب نے منع کردیا۔ لیکن اس مخالفت کی پرواہ نہ کرتے ہوئے میں نے مطالبہ جاری رکھا اور آخر کار گھر والے راضی ہوگئے اور راولپنڈی میں رہنے کا فیصلہ کرلیا ۔ اس شہر میں جہاں میرے ضلع کے مقابلے میں بہتر تعلیمی سہولیات موجود تھیں۔وہاں کئی کالجوں نے مجھے داخلہ دینے سے انکار کردیا جو گریڈ میں کمی یا نااہلیت کی وجہ سے نہیں بلکہ معذور ی اور وہیل چئیر کی وجہ سے تھا۔میں روزانہ گھر آتی اور مسلسل روتی رہتی لیکن آنسو کا ہر قطرہ میری جدوجہدکے عزم کو مزید بڑھاتا گیا کیونکہ مجھے یہ یقین تھا کہ قدرت نے یہ زخم مجھے کسی مقصد کے تحت دیا ہے۔آخر کار ایک نجی کالج کے پرنسپل نے مجھے داخلہ دے دیا اور میری امیدیں دوبارا زندہ ہوگئیں۔

اللہ کے فضل سے، جس نے مجھے تمام چیلنجز کے مقابلے کے لئے کھڑے ہوجانے کی قوت دی تھی ، میں نے چھ سال میں تعلیم مکمل کرلی اور اعلی نمبروں کے ساتھ اکاونٹنسی میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کرلی۔ یہ ایسا آسان بھی نہیں تھا، ذرا تصور کریں کالج میں آٹھ گھنٹے وہیل چئیر میں بیٹھے رہنا جہاں ہم جیسوں کے لئے کوئی سہولت موجود نہ ہو، نہ وہیل چئیر کی سہولت والے باتھ روم، ٹوائلٹس، آنے جانے کے لئے مخصوص راستے کچھ نہیں تھا۔ایک کلاس سے دوسری کلاس میں جانے کےلئے مختلف منزلوں پر چڑھنا اترنا بہت دشوار مرحلے تھےجو عملے کے لئے بھی سمجھنا آسان نہ تھا۔رات کو دیر تک پڑھنے کے لئے وہیل چئیر سے بستر اور بستر سے وہیل چئیر پر اترنا چڑھنا تاکہ ایک جگہ دیر تک بیٹھے رہنے سے جسم پر چھالے نہ ہوجائیں ایک الگ کہانی ہے۔بہر حال، میں ان مرحلوں سے کامیابی سے گزر گئی۔

اپنی بحالی کے دوسرے مرحلے میں مجھے معاشی خودمختاری حاصل کرنا تھی۔اپنی اکاونٹنسی کی ڈگری لئے میں ملازمت کی تلاش میں نکل پڑی۔ نتیجہ مایوس کن تھا کیونکہ یا تو مجھے جواب ہی نہ آتا، اگر انٹرویو کے لئے بلایا بھی جاتا تو میں خالی ہاتھ لوٹتی یہ سوچتے ہوئی کہ یہ صنفی امتیاز کی وجہ سے ہورہا تھا یا میری جسمانی معذوری اس انکار کی وجہ تھی۔ میں نے ہمت نہیں ہاری اورآخر کار ایک مختصر وقفے کے بعد مجھے ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں انٹر نی(زیر تربیت ) کی ملازمت مل ہی گئی، یہ ا یک خواب کی تعبیر سمجھئے کہ میں ایک تنخواہ دار ملازمت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی تھی۔

اپنے مائنڈ سیٹ کو تبدیل کرنا ایک چیلنج ہوتا ہےاور دوسر ے کا بدلنا تو اور بھی سنگین ہے ۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ میں نے رکاوٹوں سے نہ گھبرانے کا سبق سیکھ لیا ہے اور اسی لئے کبھی اپنی کوششوں کو کم یا ختم نہیں کیا۔میری جدوجہد کا پہلا مرحلہ یعنی ایک رہنما کی حیثیت سے سامنے آنا آسان نہیں تھا کیونکہ یہ روزمرہ کی جدوجہد تھی لیکن رو شنی کی ایک کرن سامنے تھی کہ اس سے میں اگلے مرحلے کے لئے تیار ہوگئی کہ اپنی کامیابی کی چمک سے دوسروں کی زندگی کو کیسے روشن کروں تاکہ وہ متاثر ہوکے میری تقلید کریں یا ان محاذوں کے لئے تیار ہوجائیں جہاں میں نہیں جا سکی تھی۔

میں نے اگرچہ کبھی محدود سوچ یا برادری کی بنیاد پر کام نہیں کیا، میرا زبردست یقین ہے کہ میر ی کوششیں کامیاب نہیں ہونگی اگرخود میرے ضلع کے لوگ میرے تجربے سے فائدہ نہ اٹھا سکے اور میں ان کو متاثر نہ کرسکی۔ میں خود مختلف شہروں میں آتی جاتی رہی تو میں نے محسوس کیا کہ شاید میں اکیلی ہوں جس نے وہیل چئیر پر ایک باقاعدہ طالبہ ہوتے ہوئے نہ صرف اپنی چھ سالہ تعلیم مکمل کی ۔میں معاشی طور پر خود مختار ہوں اور ان لوگو ں کے مسئلےسامنے لانے کے لئے کام کررہی ہوں جن کی ضروریات مخصوص ہیں اور اپنا یہ اعتماد دوسروں میں پیدا کرنے کے لئے بھی کوشش کررہی ہوں کہ بحالی کا سفر ضروری نہیں کہ کسی مثالی ماحول کی وجہ سے شروع ہو بلکہ یہ تحریک انسان کےاندر سے جنم لیتی ہے ۔

پاکستان کے دوردراز علاقوں میں جا جا کے اب تک میں نے معذوری کے بارے میں آگاہی کے کئی سیشن کئے ہیں، اس سے کیسے نمٹا جائے ، برادری کے روئیے اور مخصوص ضروریات والے افراد کے حقوق کیا ہیں۔اپنی رسائی کو بڑھانے کے لئے میں نے ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر وگراموں میں شرکت شروع کی تاکہ حکومت کو ان بنیادی طبی اور تعلیمی سہولتوں کے بارے میں پیغام ملے جو ان افراد کو جن کی ضروریات مخصوص ہیں اور خاندانوں، برادریوں اور عام طور سےعوام کودرکار ہیں تاکہ وہ ان پر رحم کھانے کی بجائے ان لوگوں سے جسمانی طور سے نارمل لوگوں کی طرح انسانیت اور برابری کا سلوک کریں ۔ میں نے اپنے آبائی ضلع میں ریڑھ کی ہڈی کے حادثات کے لئے ایک یونٹ اور ایک خصوصی تعلیمی مرکز کے قیام کی زوردار وکالت بھی کی ۔

مجھ سے اکثر یہ سوال کیا جاتا ہے ،” کیا آپ نے اپنے مقاصد حاصل کرلئے؟”۔ پہلے دن سے اس کا جواب میں نے یہی دیا ہے،” سفر تو ابھی شروع ہوا ہے۔” اور میں اتنی ہی تازہ دم اور توانا ہوں جیسی میں زندگی میں ہمیشہ سے تھی۔