زینب کی کہانی

شخصیت کا ٹوٹ پھوٹ جانا کوئی بڑی بات نہیں- زینب

میرے اپنے مسئلے نے مجھ پر بھیانک خواب کی طرح حملہ کیا جیسے میں پہلے کسی سراب میں زندگی گزار رہی تھی اور اس نے میری پوری دنیا کو روشن کردیا۔اس نے میری اندرونِ ذات کو بالکل ہلا کےٹکڑے ٹکڑے کردیا جیسے میرے اردگرد کی شے جھوٹ کے علاوہ کچھ نہ ہو۔میرے ذہن میں اپنی زندگی کے بارے میں سوال پیدا ہوگئے اور میں نے دنیا کی حقیقت کو ایک ڈھونگ سمجھ لیا۔

یونیورسٹی میں اپنے پہلے سال میں ، میں نے نفسیات کا مضمون لیالیکن ایک مختصر سے کورس کے طور پر جیسے اکثر طالب علم لیتے ہیں، اور اس کی پراسرار ہونے کی شہرت اور اس کے دوسرے خالص سائنسی مضامین سے مختلف ہونے کی وجہ سے مجھے اس کے مطالعے میں بڑا لطف آیا اور مجھے کئی قسم کی تھراپی تیکنیک کا علم ہوگیا جس میں ایک ہپنوسس بھی تھا۔مجھے اب بھی یاد ہے ہماری نفسیات کی ٹیچر نے بتایا تھا کہ جوبھی شوق سے اس میں حصہ لینے پر آمادہ ہو وہ سیمسٹر کی آخری کلاس میں ہپنوسس کےایک چھوٹے سے تجربے میں حصہ لے سکتا ہے۔اس وقت یہ بات مجھے عجیب لگی کہ کلاس کی اکثریت نے اس تجربے میں حصہ لینے سے گریز کیا کیونکہ انہیں اس سے خوف آرہا تھا۔ میں طالب علمی کے زمانے میں ایک غیر جذباتی اور باغی قسم کی طالبہ تھی اور مجھے تجربوں، پراسرار اور علمی چیلنجوں کا بڑا شوق تھا۔ہم پانچ طالب علموں نے اس میں حصہ لینے کا شوق ظاہر کیا لیکن صرف دو حاضر ہوئے۔

میری نفسیات کی ٹیچر نے بتایا کہ وہ ہپنوسس میں کوئی خاص تجربہ نہیں رکھتیں لیکن ہم نے ان پر زور دیا کہ وہ کوشش توکریں کہ یہ ہوتا کیسے ہے۔انہوں نے مجھ سے کہا کہ میں صوفے پر لیٹ کے آنکھیں بند کرلوں۔ مجھے زیادہ کچھ یاد نہیں رہا کیونکہ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ جیسے میں نے بے ہوشی کی کوئی بہت طاقتور دوا لے لی ہے اور جیسے میرا جسم مفلوج ہوگیا ہے۔مجھے دھندلے دھندلے سے وہ مناظر دکھائی دے رہے تھے کہ میرا کزن جسے میں نے ہمیشہ اپنا بھائی سمجھا تھا مجھ سےجنسی بدسلوکی کررہا تھا۔ 30 منٹ بعد میں اٹھ بیٹھی۔میں سب کچھ بھول گئی تھی لیکن مجھے اپنا آپ بہت بھاری لگ رہا تھا۔ میراجسم سنْ اور میں مدہوش تھی۔میں سیدھی گھر چلی گئی۔ گھر پہنچی تو میرے سر میں شدید درد ہورہا تھا میں نے ٹیچر کو بتایا تو انہوں نے کہا کہ تم ایک بوجھ لئے پھر رہی ہواور میں نے تم سے پہلے ہی کہا تھا کہ اگر ماضی میں تمہارے ساتھ کوئی حادثہ گزرا ہو یا تم دباؤ کا شکار رہی ہو تو وہ پھر بیدار ہوسکتا ہے۔میں سوچتی رہی لیکن یاد ہی نہ آیا کہ ایسا کیا ہوا ہوگا۔اسی بے چینی میں میں نے سیمسٹر کا امتحان دیا۔

بعد میں اپنی ٹیچر کے کہنے پر میں ایک سائیکوتھراپسٹ کے پاس گئی ۔ میں نے تھامس ہارڈی کا ناول ”ٹیس آف دا ڈبر ولز’  اپنے کورس میں پڑھا تھا اور یہ میرے لئے واقعی ایک محرک ثابت ہواتھا۔ مجھے ایسے مناظر نظر آئے جیسے کیمرے کی کوئی پرانی ریل چل رہی ہو. اس کے ساتھ ہی مجھے ایسا لگا جیسے یہ میرے ساتھ ہوا ہو۔میں نے اس کی نفی کرنے کی سخت کوشش کی کہ یہ غلط یاد ہے جو میرے ذہن نے خود گھڑ لی ہے ۔ لیکن میں ذہن سے اس یاد کو نہیں نکال سکی جس نے مجھ پرکئی روزتک اثر جمائے رکھا۔

جلد ہی سب کچھ مجھے یاد آنے لگا۔ میرے ایک فرسٹ کزن ہمارے گھر ہفتہ واری تعطیل میں آیا کرتے تھےجب وہ کراچی یونی ورسٹی میں زیر تعلیم تھے۔میں اس وقت 7 سال کی تھی وہ میرے لئے بڑے بھائی کی طرح تھے۔ وہ میری امی سے بہت محبت کرتے تھےاور امی بھی انہیں اکثر تعطیل پر بلالیتیں کہ ہمارے ساتھ وقت گزاریں کیونکہ وہ اپنے گھر سے دور تھے۔وہ بہت قابل اعتماد تھے اور میرے والدین مجھے اور میرے چھوٹے بھائی کو اکثر ان کی نگرانی میں چھوڑ دیا کرتے تھے۔وہ اکثر میرے چھوٹے بھائی کو پیسوں کی لالچ دے کر ہمارے اپارٹمنٹ کے قریب ایک جگہ بھیج دیا کرتے تھے جہاں بچے وڈیو گیمز کھیلا کرتے تھے۔ یہ جگہ انہوں نے خود دکھائی تھی۔میر ا بھائی بھی سیدھا سا تھا جیسے اکثر بچے ہواکرتے ہیں۔ جب میرا بھائی چلا جاتا تو وہ میرا ہوم ورک کرتے اور مجھےجنسی طور سے چھیڑا کرتے۔ یہ سلسلہ کچھ عرصے تک چلتا رہا۔ میرے والدین ان کو بلالیتے کہ وہ ہمارا خیال رکھیں ۔ انہوں نے میرے بھائی کو وڈیو گیمز بار کا عادی بنادیا تاکہ وہ اپنی جنسی خواہش مجھ سے پوری کرسکیں۔ جب میرے والدین واپس آتے تو وہ کزن مجھ پر چلانا شروع کردیتے کہ میں کتنی سست ہوں اور ڈھنگ سے پڑھائی نہیں کرتی۔

یہ کہانی سچ اس لئے ہے کہ میں اس کا ہر نکتہ عمر کے ساتھ بھول گئی تھی مجھے ذرا بھی علم نہیں تھا کہ یہ اتنے عرصے بعد مجھ پر حملہ آور ہوگی۔پہلے تو میں نے خود اپنی عقل کو جھنجوڑا لیکن اس سے تو مجھے اس پر قابو پانا اتنا تکلیف دہ ہوگیا کہ میں سیمسٹر میں فیل ہوگئی۔میرا ذہن خالی سا ہوگیا اور میں نے اس دوران میں دو امتحان چھوڑ دئیے۔ جلدہی میں نے پھر تھرا پسٹ کا رخ کیا اور مجھے بحالی میں چھ ماہ لگ گئے۔

ان چھ ماہ میں مجھے دوائیاں کھانا پڑیں اور ون ٹو ون تھراپی سیشن کرنا پڑے کیونکہ میری تشخیص کی گئی تھی کہ مجھے پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر یعنی کسی سانحے کے بعد ہونے والی تکلیف کا دباؤ محسوس ہورہا ہےمیں نے اس سے لڑنا اور اپنی آستین میں اس کوپلنے کا موقع نہ دینا سیکھا۔ان چھ ماہ نے میری پوری دنیا ہی روشن کردی اور میں اپنی کمزوری اور درد سے پیار کرنے لگی۔ میں نے اسے گلے لگا لیا۔ میں نے اسے کمزوری کی بجائے اپنی طاقت بنالیا۔آج بھی مجھے اپنی تھراپسٹ کے الفاظ سنائی دیتے ہیں کہ ” مختلف منزلوں کو جانے کے لئے ہمیشہ دو سخت راستے ہوتے ہیں۔ یہ فیصلہ ہمیں کرنا ہوتا ہے کہ ہمارے لئے کون سا راستہ بہتر ہے۔یہ ہم پر ہے کہ ہم شکار بنے رہیں یا خود کو بچالیں۔تم کیا بننا چاہتی ہو؟ آخر میں ہمیں اس فیصلے سے پہچانا جائے گا جو ہم نے کیا ہوگا۔”اس روز میں نے اپنےآخری آنسو پونچھے تھے۔اسی روز میں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ میں ان لوگوں کی مدد کیا کرونگی جو اپنی خامیوں والی انسانی ہستی کو گلے لگانے کے راستے پر چلنا چاہتے ہوں۔

میں نے اپنی ٹوٹی پھوٹی کمزو ر شخصیت کو درست کرنے کے لئے سخت محنت کی ہے اور آج میں ایک مضبوط عورت ہوں جس پر مجھے فخر ہے۔جب میں نے خود کو سنبھال لیا تو اپنے والدین کو بھی اطمینان دلا دیا۔ میں ان کو الزام نہیں دیتی نہ مجھے ان سے کوئی شکایت ہے۔ اپنی بحالی کے فورا بعد میرے شعبے نے مجھے دوبارا امتحان دینے کی اجازت دے دی جس میں پہلے فیل ہوگئی تھی۔میں نے اپلائیڈ نفسیات میں ماسٹرز کامیابی سے مکمل کرلیا جو میں سمجھتی تھی کہ کبھی نہیں کرسکونگی۔

اس واقعے نے مجھے بڑا متاثر کیا ہے ۔ میں سمجھتی ہوں کہ وقت کی ریت پر اپنے پیروں کے نشان چھوڑ جانے کے لئےآخر کار اہمیت ”طریقہ کار”کی ہی ہوتی ہے ۔امید کرتی ہوں کہ یہ خاموش سرگوشی ان لوگوں کی مدد کرے گی جو اسی قسم کے مسئلوں کا شکار ہیں،” آپ کی بات سن لی گئی ہے اور ٹوٹ پھوٹ جانے اور کمزور ہونے میں کوئی بات نہیں ، یہ اپنے طور پر ایک خوبصورتی ہے”۔