تسکین ہیلپ لائن نمبر: 8275336 316 92+

عباد کی کہانی

عباد: اس راہ پر ہم اکیلے نہیں

میری بیماری کی ابتدا یا اس کی پہلی بڑی علامت شاید خودکشی کی کوشش تھی جو 1999ء کے اواخر میں ظاہر ہوئی۔ میں اس وقت 19 سال کا تھا۔ میرا خیال ہے کہ میں کچھ عرصے سے ڈپریسڈ تھا۔ اس وقت تک میں ایک سماجی اچھوت بن چکا تھا۔12 سا ل کی عمر سے میں نے خود کو خاندان سے الگ تھلگ کرنا شروع کردیا تھا۔ میں گھر کے اندر سے زیادہ وقت باہر گزارتا تھا۔ میرا اپنے گھر میں کسی سے کوئی رابطہ نہیں تھا۔ گھر مجھے کاٹ کھانے کو دوڑتا اور بہت تکلیف دہ لگتا تھا، چنانچہ میں نے اپنی زندگی کا رخ باہر کی طرف موڑ لیا۔اس کے ساتھ ظاہر ہے اس کے اپنے مسائل ساتھ آئے۔ لوگ پوچھتے میں سارا وقت کہاں غائب رہتاہوں۔ میرے والدین کو انہیں مطمئن کرنے کے لئے جھوٹ بولنا پڑتا۔ یا لوگ مجھ سے سوال کرتے کہ ہو کیا رہا ہے۔

میں نے ایک قابل ر حم مظلوم کا کردار ادا کرنا شرو ع کردیا جسے زندگی نے بہت نچوڑ دیا ہو۔ یہ میرا اسکرپٹ بن گیا۔ بیچارہ! سب ترس کھانے لگے۔ خودکشی کی کوشش کے بعد جب ہمدردی ملی تو میرا مرض اور بھی بڑھ گیا، میں نے یہی کارڈ کھیلنے کا فیصلہ کرلیا۔میں ایک خطرناک شخص بن گیا تھا، خطرناک جگہوں پر چڑھنا، کئی کئی خطرناک کام کرنا۔ میں یہ سب چیزیں اس لئے کرتا کہ اپنی قابل رحم کیفیت کو بہتر بنا سکوں، اپنی حقیقی صورتحال پر پردہ ڈال سکوں۔ یہ خطرات مجھے سماج دشمن روئیے کی طرف لے گئے۔ میرا پہلا سماج دشمن رابطہ ایک گروہ سے ہوا جسے ’بدمعاش لڑکے‘ نام دیا گیا تھا۔ہم1999ء کی دہائی کے آخر اور2000ء کی دہائی کے شروع میں کراچی میں بڑا نام تھے۔ ہمارا کام کیا تھا بس لوگوں کے لئے مشکلات پیدا کرنااجتماعی طور سے بھی اور انفرادی طور سے بھی۔ بے پناہ زیادتی، غنڈہ گردی اور عوامی نقصان۔

یہ سفر خودکشی کی کوشش سے شروع ہوا، بیچارگی سے ہوتا ہوا میں خود ایک بدمعاش بن گیا، او ر میں معاشرے میں ایک ناراض نوجوان بن گیاجو معاشرے سے انتقام لے رہا ہو۔ صورتحال اور بھی بگڑ گئی جب میں منشیات کی طرف چل پڑا، میں نے مختلف قسم کی منشیات اور شراب کا استعمال شروع کردیا۔ آخر کار میں اپنی نشے کی ضروریات پوری کرنے کے لئے ایک منشیات فروش بن گیا۔1999ء اور 2010ء کے درمیان خودکشی کی تین مزید کوششیں ہوئیں،آخری کوشش کے بعد میں تباہی کے گڑھے میں بری طرح گرچکا تھا۔

خودکشی کی جوآخری کوشش میں نے کی اس میں خود کو گھر میں تالا بند کرلیا، مجھے معلوم تھا کہ خواب آور گولیاں کام نہیں کریں گی۔ مجھے معلوم تھا کہ اپنی کلائی کو کاٹنے سے بھی فائدہ نہیں ہوگا۔ لہذا میں نے اپنی بے پناہ ذہانت سے کام لیتے ہوئے فیصلہ کیا کہ میں خود کو بھوکا رکھ کے مارونگا۔ گھر کو تالا لگاکے میں نے صرف ووڈکا، سگریٹیں،چرس اور کوکین ساتھ رکھی۔ جب میرے بھائی اور دوست نے دروازہ توڑا اورمجھے بچالیا تو میں نے گیس سے پورے گھر کو جلانے کی ٹھان لی۔ لیکن وہ مجھے قابو کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ میں جسمانی طور پر اتنا کمزور ہوچکا تھا کہ انہوں نے آسانی سے مجھے زیر کرلیا۔ تب مجھے یہ احساس ہوا کہ میں بے حدناخوشگوار بو وا لے مواد کے ڈھیر کے اوپر بیٹھا ہوں۔

میرے بہترین دوست بھی آگئے اور انہوں نے دخل اند ازی شروع کردی۔ پہلے تو میں نے سمجھا کہ یہی میرا حل ہے۔ منشیات، فرار جو اب میرا مسئلہ بن چکا تھا۔اسی دوران میں نے خود کو ایک بحالی مرکز میں پہلی بار داخل کروالیا۔ یہ مرکز جہاں میں داخل ہوا تھا ایک بھیانک، جارحانہ، تشدد بھرا مقام تھا۔ جو طریقہ کار وہ استعمال کرتے تھے وہ قبل از تاریخ سے بھی پہلے کاتھا؛ لوگوں کو زنجیروں سے باندھ کر رکھتے اور انہیں دھوپ میں نو گھنٹے تک الٹے اسٹول پر بٹھا کے سزادیتے۔

میں وہاں سے واپس آگیااور دوسال تک میں نے منشیات کو خوف کے مارے ہاتھ بھی نہیں لگایا، میں نے اپنے دوست لیکن وہی رکھے، اپنا سماجی حلقہ، اپنی عادتیں، اور سرگرمیاں کچھ بھی نہیں تبدیل کیں اور وہی ہوا جو ہونا تھا، میں 2013ء میں پھر پرانی روش پر لوٹ گیا۔ یہ ایک 15ماہ کا دورانیہ تھا اور گزشتہ 15سال میں، میں نے جو تباہی مچائی تھی وہ اس مختصر سے عرصے کی تباہی کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں تھی۔ یہ میری زندگی کا بھیانک ترین دور تھا۔ میں نے خود کو سڑک پر پایا۔ میں بھیک مانگ مانگ کے کھاتا پیتا اور میں نے ہر اس شے کو توڑ پھوڑ دیا جوکبھی بنائی تھی۔ میں نے ایسی ایسی حرکتیں کیں جو میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا، میں جھگڑالو اوراپنوں سے ہی زیادتی کرنے والا بن گیا جس سے میرا مطلب، میری منگیتر، میرا کتا اور میرا گھر ہے(جو میرا بھی نہیں تھا بلکہ ایک ایسی مخلص فیملی کا تھا جنہوں نے مجھے اپنا لیا تھا)۔

مجھے سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ میں کیا کروں، کیسے کروں اورکب کیا کام کروں۔اس کیفیت میں میری حسیات مجھ پرپوری طور سے غالب آگئیں۔ اگر میرا دل چاہتا کہ کسی کو لوٹ لوں تو میں ایسا ہی کرتا، کسی کو مارنے پیٹنے کو جی چاہتا تو وہی کرتا۔اگر کسی کو دھوکا دینے کا من ہوتا تو وہی کرتا۔اس عرصے میں میں نے دعا مانگنا شروع کردیا کیونکہ باقی سب کوششیں تو ناکام ہوچکی تھیں۔ نفسیات کی مدد ناکام، منشیات کی لت سے بحالی ناکام۔ خودکشی کی کوششیں ناکام۔ معمول کی زندگی جو میری کبھی نہیں رہی لیکن میں سمجھتا تھا کہ ہے، وہ ناکام۔ تو اب میں نے دعا مانگنا شروع کیا۔

اس موڑ پر میں نے ملک سے باہر ایک دو افراد سے رابطہ کیا جنہیں میری کہانی معلوم تھی۔ خوش قسمتی سے وہ یہاں آگئے اور مجھ سے ایک تھراپی کورس میں شامل ہونے کے لئے کہا۔ جب میں اس کورس کیلئے رجسٹر ہونے گیا تو اس ادارے کے مالک وہ نکلے جو پاکستان کے بہترین اور موثر ترین منشیات بحالی مرکز کے مالک تھے۔ انہوں نے مجھے سیڑھیوں پر دیکھا …. دو سال پہلے وہ مجھے منشیات سے چھٹکارا پاتے ہوئے دیکھ چکے تھے، انہوں نے مجھ سے کہا کہ وہ بات کرنا چاہتے ہیں۔ ہم نے بات کی، میں پھوٹ پڑا اوربچے کی طرح رونے لگا میں نے انہیں بتایا کہ مجھے سمجھ میں نہیں آتا کہ میں کروں کیا۔ اور جو کچھ میں نے کیا اس پر مجھے کوئی اختیار نہیں تھا۔انہوں نے بڑے اطمینان سے میری ہر بات سنی اور صرف ایک سادہ سی بات کہی، ”بیٹا! تم جس راہ پر چل رہے ہو اسی پر چل سکتے ہو اور خود کو ہلاک کر ڈالو یا میرے بحالی کے مرکز میں چند ماہ کے لئے داخل ہوجاؤ۔“مجھے بہت اچھا لگااور اچھا سے میری مراد ہے کہ مجھے یہ محسوس ہوا کہ میری بات سنی اور سمجھی گئی ہے اور میری دیکھ بھال ہوگی۔یہ وہ احساس تھا جو ایک طویل عرصے سے میرے قریب بھی نہیں آیا تھا، یہ سمجھ لینا کہ کوئی ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ مجھ پر کیا گزر رہی ہے، کوئی ہمدردہے جس نے پیشکش کی ہے اور جس کے پاس میری مدد کے ذرائع ہیں۔

آخر کار میں نے اپنا آخری جوائنٹ پینے اور بحالی علاج مرکز میں داخل ہونے کا فیصلہ کرڈالا۔وہ 21مارچ 2014ء تھی۔ آج سے ایک ماہ پہلے میں نے منشیات سے پاک، صحتمندی اورہوشمندی کے دوسال مکمل کئے ہیں۔زندگی بدل چکی ہے۔ یہ گلاب کی سیج تو نہیں، نہیں، اس میں اب بھی کانٹے موجود ہیں۔ لیکن میں اب میں نشے سے آزاد اور ہوشمند ہونے کی وجہ سے بہترطور سے نمٹ سکتا ہوں۔ میرا ڈپریشن اور اس سے نمٹنے کے لئے نشہ آور اشیا کا بے تحاشا استعمال، وہ سب مواقع موجود ہیں، طلب اپنی جگہ موجود ہے، وہ خیالات اب بھی اپنی جگہ ہیں …… لیکن اب میرے پاس یہ معلومات ہیں کہ ان سے کیسے نمٹا جاسکتا ہے۔اس سے مجھے اس میں بڑی مدد ملی ہے کہ نمٹنے کی ٹیکنیکس کیا ہیں، یہ جاننے میں کہ مجھے ایک معاون نظام کا سرگرم حصہ بننا ہے، یہ کہ پہلے مجھے پہلے اپنے ارادے کو فنا کرنا ہے اور پھر ان لوگوں کو مدد کی پیش کش کرنا ہے جو ابھی مشکلات سے گزررہے ہیں۔

تو اب یہی میری زندگی ہے، میری زندگی خدمت سے عبارت ہے۔ میں اپنی زندگی کا محور یہی رکھنا چاہتا ہوں، اس وقت تک جب تک مجھے موت نہ آجائے۔ میں اپنی زندگی کوعلاج، بحالی اور خدمت سے عبارت رکھنا چاہتا ہوں۔ میں ان تمام قوتوں کا تا ابد شکر گزار ہوں جنہوں نے اس سفر کے دوران میر ی مدد کی، جس سے مجھے کھڑے ہوجانے اور ان لوگوں کی مدد کرنے کی طاقت ملی جو سمجھتے ہیں کہ ان کی بات کوئی سن نہیں رہا کوئی انہیں سمجھ نہیں رہا ہے۔

ایک بات جو میں سب سے بانٹنا چاہتا ہوں: آپ تنہا نہیں ہیں، آپ اس راہ کے اکیلے مسافر نہیں۔ دوسرے بھی اس سے گزرتے ہیں۔ دوسرے لوگ اپنے جیسوں میں سکون تلاش کرلیتے ہیں۔ اگرآپ کو یہ عارضہ ہے تو اسے چھپائیے نہیں، اپنا درد بانٹ لیجئیے۔اس کا علاج، نمٹنے کی ٹیکنیکس اور تعاون موجود ہے۔جو لوگ اس تکلیف سے گزررہے ہیں انہیں ہم جیسے لوگوں کی ضرورت ہے کہ ہم آگے آئیں اور اس موضوع پر بات کریں، اس بدنما داغ کو چیلنج کریں اور آگاہی میں اضافہ کریں۔