غضنفر کی کہانی

 

اپنی زندگی میں مثبت باتوں پر توجہ دیجئے- غضنفر

اپنی کمپنی چلانا یا اس سے بھی  بڑھ کر اسے شروع کرنا کسی بھی شخص کے لئے ایک ایسا بھاری سودا ہے جس کی جذباتی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔جی ہاں، شروعات  ایک ایسا   نیاجھنجناتا ہوا لفظ ہے جو ہر جگہ سنائی دیتا ہے اور آج کے دور میں کار انداز  نئے راک اسٹار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ لیکن دوسری چیزوں کی طرح اس شعبے میں بھی صرف کامیابیوں کا ہی جشن منایا جاتا ہے اس ناکامی، خطرات، سخت محنت ،    فداکاری  اور رگڑ کھانے   کا   کوئی ذکر نہیں جس سے کوئی   گزرتا ہے، ڈوبتا ہے اورپھر بھی  زندہ بچ کےدوسری طرف نکل آتا ہے۔ میری عمر 33 سال ہے ، میں شادی شدہ ہوں اور میرے دو  زبردست بچے ہیں اور ہاں آپ  کا خیال صحیح ہے کہ  اپنی کمپنی شروع کئے جانے کے بعد سے اب تک  مجھ پر بھی اچھے اور برے وقت آئے لیکن  اب  صور تحال میرے قابو میں آتی جارہی ہے۔ دنیا کی آنکھوں میں،   میں  ایک کامیاب کار انداز ہوں جس کا ایک غیر معمولی کارپوریٹ کیرئیر ہے۔جو  بین الاقوامی تیز رفتار پروگرام کے تلے پروان چڑھا،   جس نے دنیا  کاسفر کیا ہےاور جسے   آئیوی لیگ یونیورسٹیوں میں   خطاب کی دعوت  دی جاتی ہے۔

یہ سب بتانے کے بعد میں کہوں گا کہ اسکول کے دنوں میں  میں بے حد دبلا پتلا تھااور یہ 1990 ءکا عشرہ تھا جب انٹرنیٹ  بھی  نہیں تھا ہمارے پاس۔ مجھے اسکول کے زمانے میں  ہر وقت تنگ کیا جاتا تھا اور طرح طرح کے نام رکھے جاتے تھے جس کی وجہ سے میری خوداعتمادی ختم ہوگئی تھی اور پڑھائی میں میری کارکردگی پر بھی برا اثر پڑا تھا۔ اوسط درجے کے نمبروں کے ساتھ میں کسی نہ کسی طرح  اپنی تعلیم پوری کرپایا اور دھیرے دھیرے کارپوریٹ شعبے میں  ایک ملازمت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ لیکن جب بھی لوگ، دوست،  ساتھی ملازم اور حتیّ کہ میرے اہلِ خانہ  میرا مذاق اڑاتے یا تنگ کرتے تو میری ریڑھ کی ہڈی میں ایک کپکپاہٹ سی دوڑ جاتی اور میں جواب بھی نہ دے پاتا۔میں آپ کو یقین دلاؤں کہ میں ہر تبصرےکا جواب  جسمانی طور پر دے سکتا ہوں کیونکہ میرا قد6فٹ 2 انچ ہے اور میرے لئے ایسا کرنا بہت آسان ہے لیکن میں نے ایسا نہیں کیا۔مجھے ایسا لگتا جیسے میں وہی 11سالہ اسکول طالب علم ہوں جسے ایک چھوٹے سے کونے میں کھڑا کردیا جاتا تھا  اور بچے مجھے تنگ کیا کرتے تھے۔ یہ احساس بالغ ہوجانے کے بعد بھی ہمیشہ مجھ پرغالب رہا ہے۔

ہمارے ملک کےسماجی  ماحول اور خود  ایک  طاقتور مرد ہونے نے مجھے مدد مانگنے یا کسی بات کرنےسے روکے رکھا  کیونکہ  مرد  اپنے جذبات کا اظہار نہیں کرتے ۔ ہم مضبوط اور غیر حساس سمجھے جاتے ہیں۔وقت حالانکہ تبدیل ہوچکا ہے اور ہمارے پاس انٹرنیٹ بھی ہے اور میں نے کئی ویب سائٹس پر  ستائے جانے  کے بارے میں معلومات حاصل کیں کہ یہ کیسے کسی فرد پر اثر انداز ہوتی ہے۔ بعد میں ایک قریبی دوست نے جو خود کسی تھراپسٹ کے  پاس جاتا رہا تھا،  مجھے بتایا کہ جب بھی کوئی مجھ پر نام دھرتاہے یا میرا مذاق اڑاتا ہے تو احساس وہی ہوتا ہے جو پہلی بار ستائے جانےپر ہوا تھا تو میں یا تو خاموش ہوجاؤں یا اس جگہ سے اٹھ جایا کروں۔

جب میں نے اس نکتے کو سمجھ لیا تو اس سے نمٹنا بھی آسان ہوگیا۔ میں نےستانے والے  لوگوں سےان کےروئیے کے خلاف  بات کرنا شروع کردیا، اور اگر وہ اس پر بھی باز نہ آئے تو میں نے ان پر یہ واضح کردیا کہ آئندہ ان سے نہیں ملونگا۔میں نے یہ سیکھا ہے کہ آپ کو اپنی زندگی میں منفی باتوں کی ضرورت نہیں اور عام طور سے یہ آپ کے ارد گرد موجود لوگوں کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے ۔اس حلقے کو تبدیل کیجئے اور اپنے کام، اہل خانہ اور اپنی زندگی میں مثبت چیزوں پر توجہ دیجئے۔

جو بھی لوگ میری اس تحریر کو پڑھ رہے ہیں ان کو میں یہی مشورہ دونگا کہ  وہ لوگوں کو ستانا اور ان کا مذاق  اڑانا بند کردیں ، آپ کو کیا پتا کہ وہ شخص ماضی میں  کن حالات سے گزرا ہے  اور آپ کے الفاظ اس پر کیا اثر ڈال رہے ہیں۔اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ اپنے بچوں کو سمجھائیے کہ ستانا کسے کہتے ہیں اور یہ کیوں اتنا خراب ہوتا ہے۔میں بھی یہی کرتا ہوں  اور جب بہت سی آوازیں اس کے خلاف بلند ہوں گی تو  زیادہ لوگ اس پر بات کریں گے اور اس سے ہمیں اس مسئلے کو نظر انداز کرنے کی بجائے اس کو حل کرنے میں مدد ملے گی۔

میں تعاون  اور اپنے احساسات پر خود سوال اٹھانے سے  اس مسئلے کو حل کرسکا ہوں لیکن بہت سے لوگوں کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ ان کے ان احساسات کی وجہ کیا ہے ۔ ہم ان کی مدد کرسکتے ہیں اور ہمیں کرنا بھی چاہئے۔