کیا کبھی آپ نے سوچا ہے کہ صنفی کردار کس نے طے کئے ہیں؟ کس نے مردانیت یا نسوانیت کی تشریح کی ہے؟یہ محض چند خصوصیات ، روّیوں اور کرداروں کا مجموعہ ہے جو عام طور سےلڑکے یا لڑکی سے منسوب کیا جاتا ہے۔مردانیت یا نسوانیت کا یہ تصور ہم میں حیاتیاتی سے زیادہ سماجی حیثیت رکھتاہے۔اگر ہم ان کرداروں اور ان کی حرکیات کی تفصیل میں جائیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ یہ زیادہ تر سماج ساختہ ہیں نہ کہ حیاتیاتی ۔یہ معاشرہ طے کرتا ہے کہ مردانہ اور نسوانی کا کیا مطلب ہے۔اگر میں اپنے پرائمری اسکول کے دن ذہن میں دہراؤں تو یاد آتا ہے کہ ہر مشق میں جو میں نے’ الفاظ کی ضد’کے لئے کی اس میں مرد کی ضد خاتون ہوتی تھی۔میں اب تک اس تعریف کو مسترد نہیں کرتی آئی ہوں ، بلکہ میں سمجھ گئی تھی کہ اس کے معنی لفظی طور پر مخالف نہیں بلکہ یہ ایک دوسرے کے ہم منصب ہیں۔دونوں مل کر معاشرے کی توقعات اور مشروط خود احترامی کی تشکیل کرتے ہیں۔ مثال کے طور پرمرد کے بارے میں تصور کیا جاتا ہے کہ وہ غالب ، بہادر، غیر فعال، مضبوط پٹّھوں والا اور خودمختار ہوگا جبکہ عورت میں جسمانی، نفسیاتی اور عقلی اعتبار سے اس کی مخالف خصوصیات ہونگی۔ فرق نوٹ کیجئے کہ عورت کو دروں بین ، جذباتی ، شرمیلی اور انحصار کرنے والی سمجھا جاتا ہے۔ لیکن اس کا دارومدار اس بات پر ہے کہ ان کی پرورش اور سماج میں اٹھنا بیٹھنا کیسا رہا ہے۔
دونوں اصناف کے ساتھ روزانہ رکاوٹیں پیدا ہوتی ہیں خواہ وہ سماجی-ثقافتی ہوں، عقلی ہوں یا جسمانی اعتبار سے ہوں۔وہ تجسس بھراسوال جس نے میری سوچ کے عمل کو جھنجوڑ ڈالا وہ یہ ہے کہ آخر کس نے مر داور عورت کے تجربوں کے یہ مختلف پیمانے بنائے۔کس نے عورت اور مرد کی مخصوص سماجی- ثقافتی، عقلی اور جذباتی سخت حدیں مقرّ رکر دیں جو حقیقی حیاتیاتی فرق کے علاوہ ہیں؟اس کا ایک جواب ہے” سماج ساخت”۔ مجھے اس پہلو سے اتفاق ہے کہ معاشر ےمیں ابتری اور ہنگامے سے بچنے کی خاطر لوگوں کے لئے چند حدیں مقرر کرنے کے لئےسماج ساخت ضروری ہے۔لیکن اگر کوئی فرد اپنی صنف سے ہٹ کے کچھ اور خصوصیات اپنی ذاتی پسند سے اپنانا چاہے توسماج ساخت کو اس پر کنٹرول کرنے کا اختیار نہیں ہونا چاہئے۔یوں سمجھئے کہ ایک شخص کو اپنے جذباتی تجربوں کے اظہار کی آزادی ہونی چاہئے اور اگر وہ رونے میں سکون محسوس کرے تو اس میں صنف کا کوئی کردار نہیں ہونا چاہئےجو اسے اپنے جذبات کے اظہار سے روکے۔یہ معاشرے کا کام نہیں ہونا چاہئےکہ ایک انسان کی ذہنی یا جذباتی صحت پر ، جو سماجی ساخت کے تحت صنفی کردار سے بنی ہے ، حاوی آجائے۔
جذبات کی چھ عالمی قسمیں ہیں: نفرت، اداسی، خوشی ،خوف، غصّہ، حیرت۔ اور ہمیں انسان کی حیثیت سے، نہ کہ محض مرد یا عورت کے ناتے، ضرورت کے وقت ان جذبات کے اظہار کا حق ہونا چاہئےکیونکہ اس سے اظہار کا حقیقی ذریعہ مل جاتا ہے۔ جب بھی میرے بھائی کو چوٹ لگتی یا فریکچر ہوجاتا تو” مردبن مرد” کے الفاظ سنائی دیتے ۔ وہ واقعی رونا چاہتا لیکن ہمارے جاننے والے اس کو انہی الفاظ سے حوصلہ دیتے کہ تم ایک مرد ہو اور مرد رویا نہیں کرتے، یہ عورتوں کا کام ہے۔ اس وقت مجھے اس کی آنکھوں سے صاف نظر آتا کہ وہ درد محسوس کرتے ہوئے چیخنے چلّانے کے لئے کتنا بے چین ہے لیکن وہ صرف اس لئے اپنے جذبات دبادیتا تھا کہ اس کے ارد گرد کے خصوصی لوگ اسے ایک توانا مرد تصور کرتے ہیں۔تو یہ ہے وہ مقام جہاں معاشرہ ہماری ذاتی خواہشوں اور تجربوں میں دخل دیتا ہے۔
لہذا جب صنفی کرداروں اور ان کی پہلے سے طے کی ہوئی قدرتی پہچان میں بڑی الجھن پیدا ہوجائے تو تعصّب سر اٹھاتا ہے جو ہلکے ہلکے ہماری زندگی کو متاثر کررہا ہےاور ہم کسی مزاحمت کے بغیر اسے قبول کررہے ہیں۔یہ سمجھنے کی شدید ضرورت ہے کہ صنفی کردار خاص طور سےصنف سے مخصوص نہیں بلکہ یہ اس شخص کی پرورش کی عکاسی کرتا ہے۔انسان کو اشرف المخلوقات قرار دینے والے کئی محققوں نے ثابت کیا ہے کہ مختلف معاشرے مختلف سماجی قاعدوں سے آگے نکل چکے ہیں اور صنفی کرداراس کے مطابق ڈھل گئے ہیں۔ مرد عورتوں کے مقابلے میں قدرتی اعتبار سے جسمانی طاقت میں زیادہ رہے ہیں لیکن فطرت نے دماغی استعداد میں ایسا کوئی فرق نہیں رکھا ۔ یہ تعصبّات ہیں جو دونوں صنفوں کو اپنی صلاحیتوں کے بھرپور استعمال سے روکتے ہیں۔لہذا نسوانیت اور مردانیت کے سماجی تصور سے چِپکے رہنے کی بجائے ہم سب کو انہیں ایک مختلف انداز سے دیکھنے کی کوشش کرناچاہئے تاکہ اس سے کسی شخص کی کارکردگی ، خواب اور تخلیقی صلاحیت محدود نہ ہو اور تب ہی ہم آنے والے برسوں میں اپنے معاشرے میں بہتر تبدیلی کی امید کرسکتے ہیں۔